• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشکلات سے لڑتے، گھبرائے ہوئے ، بلکہ گھیرے میں آئے ہوئے بھاری بھرکم مینڈیٹ رکھنے والے رہنماچاہتے ہوں گے کہ سیماب صفت عالم ِ دین، علامہ طاہر القادری کی آمد کی صورت اُن کے مصائب میں اضافہ نہ ہی ہوتو بہتر ۔ ڈاکٹر قادری صرف گفتار کے ہی غازی نہیں، اور ان کی قوت ِ خطاب سے کس کوانکار ،اُن کے پاس منظم ، متحرک اور جذباتی پیروکاروں کی ایک فوج ہے جو اُن کے ایک اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ چیز اُنہیں دیگر سیاسی جماعتوں پر فوقیت دیتی ہے کیونکہ بیانات اپنی جگہ پر، اُن کے پاس اسٹریٹ پاور نہیں ہے ، قادری صاحب کے پاس ہے ۔
شاید کوئی جماعت بھی پنجاب پولیس کو توہین آمیز طریقے سے بھاگنے پر مجبور نہیں کرسکتی، لیکن ڈاکٹر قادری کے پیروکاروں نے نہ صرف ماڈل ٹائون میں پولیس کے وحشیانہ تشدد ( براہ ِ راست فائرنگ سے دوخواتین سمیت چودہ ہلاک اور درجنوں زخمی) کا سامنا کیابلکہ اس کے بعد راولپنڈی میں اسلام آباد میں اپنے قدموں پر کھڑے رہے ، جبکہ پولیس جوکچھ کرسکتی تھی، کرکے دیکھ لیا۔ پنجاب پولیس کی شہرت ہے کہ یہ کمزوروں کے لئے انتہائی بے رحم سہی، لیکن طاقتور کے تیور پہچانتی ہے ۔اگست 2014ء کے دھرنوں کا راستہ عمران خان کی پی ٹی آئی نے نہیں بلکہ ڈاکٹر قادری کی پاکستان عوامی تحریک کے دلیر اور جاں نثار کارکنوں نے ہموار کیاتھا۔ اور ، اگرچہ میرے دوست ، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر، اعتزاز احسن اُس موقع پر نواز شریف حکومت کو بچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن درحقیقت حکومت کے لئے یہ مدد جنرل راحیل شریف صاحب کی طرف سے آئی تھی کیونکہ مقتدر ادارے نے دیکھ لیا تھا کہ پی ایم ایل (ن) کافی اچھا سبق سیکھ چکی ہے ۔
دھرنے کے بعد حکومت کی طاقت یا اختیارشاہرائے دستور پر نیم جان ہوچکا تھا۔ اسے گرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، نگاہ کا اک اشارہ ہی کام تمام کرنے کے لئے کافی تھا۔ اعتزاز احسن اور سید خورشید شاہ کا کردار تو محض دکھاوا تھا، اصل ہدایت تو کسی اور حلقے کی طرف سے آئی تھی۔ عمران خان اور علامہ صاحب کی غلطی دھرنوں کواس ادراک کے بعد طول دیناتھی کہ مقتدر ادارے کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملنے والی۔ اُنہیں اپنا بوریا بستر گول کرکے گھروں کو سدھارنا چاہئے تھا، لیکن طول دے کر اُنھوں نے دھرنے کے ڈرامائی اثر کو ختم کردیا۔ زندگی اور ادب ، دونوں میںاختتامی سین کو طویل نہیں ہونا چاہئے ۔
تاہم یہ ماضی تھا، اسے چھوڑیں اور حال کی طرف دیکھیں۔ شریف برادران سچے ، جھوٹے الزامات کی سہار رکھتے ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برسوںسے سیاسی اکھاڑے میں ہیں ، اوران سے نمٹنے کے دائو پیچ کھیلنے کے استاد ہیں، چنانچہ ٹی او آرز ، کمیٹیاں اور جوڈیشل کمیشن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ ایک جوڈیشل کمیشن ماڈل ٹائون ہلاکتوں پر بھی بنا تھا، دوسال بعد بھی اس کی رپورٹ منظر ِعام پر نہیں آئی۔ احتساب، شفافیت، قانون کی حکمرانی کے دعوئوں اور اصولوں کی پاسداری کی بازگشت اپنی جگہ پر، لیکن عملی طور پر ہم کسی اور دنیامیں رہتے ہیں۔ پاناما لیکس کے ٹرمز آف ریفرنس پر اگلے بیس ماہ تک بحث جاری رہ سکتی ہے، ان سے کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ بے شک بیرسٹر اعتزاز احسن قانونی ماہر ہیں، ہوسکتا ہے کہ سید خورشید شاہ بھی معاملے کو ابہام میں رکھنے، جس کے وہ ماہرہیں، سے گریز کریں لیکن اسٹریٹ پاور کے بغیر یہ تمام گفتگو متاثر کن تو ہوسکتی ہے ، فیصلہ کن نہیں۔ ہاتھ میں عصا نہ ہو تو کلیمی کار ِ بے بنیاد ہوتی ہے ۔ اس وقت عمران خان بھی احتجاج کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن اُن کے احتجاجی مظاہرے منظم اور کنٹرولڈ نہیں ہوتے۔ وہ نہ تو اپنے جلسوں میں نظم رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی شریک خواتین کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں، نیز اس کے اہم رہنمائوں کے درمیان پیہم رسہ کشی اور کھینچا تانی ایک معمول بن چکی ہے ۔ چنانچہ اسٹریٹ پاور کو تحریک دینے اور اسے منظم رکھنے میں ناکامی پی ٹی آئی کی اہم ترین کمزوری ہے۔
درحقیقت پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتوں میں تنظیم سازی کی روایت مضبوط نہیں( ایم کیو ایم میں تنظیم تھی لیکن اس کا تعلق ڈرل مشین کلچر سے تھا اور اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں )۔ اپنے تمام تر حجم کے باوجود پی ایم ایل (ن) پرویز مشرف کے خلاف مال لاہور پر پچاس ساٹھ سے زیادہ افراد کبھی جمع نہیں کرسکی تھی۔ اسی طرح جنرل ضیا کے دورمیں پی پی پی کی احتجاجی سکت بھی بہت محدود تھی۔ ہوسکتا ہے کہ پی پی پی کے بہت سے جیالے اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن 1983 کی ایم آرڈی کی تحریک زیادہ تر سندھ کے جاگیردار طبقے کی تحریک تھی اور غلام مصطفی جتوئی مرحوم اس کے روح ِرواں تھے ۔ تاہم ڈاکٹر قادری کی پاکستان عوامی تحریک ایک مختلف جماعت ہے ۔ تحریک کے زیر ِ انتظام چلائے جانے والے ااسکولوں میں برس ہا برس تک تعلیم و تربیت کے بعد اس سے وابستہ نوجوان، جن کا تعلق نچلے اور درمیانی طبقات سے ہے ، ایک منظم ، جذباتی اور سخت جان تحریک کی صورت اختیارکرچکے ہیں۔ کسی مجھ جیسے شخص سے کوئی فٹ پاتھ پر رات گزارنے کا کہے اور پھر ہمارا رد ِعمل دیکھے ۔ تاہم پی اے ٹی کے کارکنوں، جن میں مرد اور خواتین ، دونوں شامل ہیں ، کے لئے یہ ایک معمول کی بات ہے۔ وہ تھوڑی سی ضروری چیزیں ساتھ لے کر کسی بھی وقت احتجاج یا مارچ کے لئے مختصر نوٹس پر تیار ہوتے ہیں(جماعت ِاسلامی اور جماعت الدعوۃ کے کارکنوں میں بھی یہی تیاری اور جذبہ پایا جاتا ہے)۔ مجھے پاکستان عوامی تحریک کے سیاسی یا مذہبی تصورات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بہت زیادہ مذہبی خطبات ویسے بھی اپنی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں۔ مز ید یہ کہ مجھے محترم ڈاکٹر کاکینیڈ اسے یک لخت آدھمکنا اور پھر ایسے ہی طرح دے کر چلے جانا بھی ناپسند ہے، لیکن پی اے ٹی کے اسلام آباد دھرنے کو قریب سے دیکھنے کے بعد میں اس کے کارکنوں کی مستقل مزاجی، استقامت اور حوصلے کا دوٹوک مداح ہوں۔ چاہے آپ اس جماعت کے تصورات سے اتفاق کرتے ہوں یا اس کے ناقد ہوں، آپ اس کی خواتین کے غیر معمولی جذبے اور لگن کو دیکھ کر سراہے بغیر نہیں رہ سکتے ۔
عمران خان کو بھی پاکستان کے اُس گروہ، جسے عرف عام میں ممی ڈیڈی گروہ کہاجاتا ہے ، کو سیاسی میدان میں کھینچ لانے کاکریڈٹ دیا جاتا ہے ۔ اس سے پہلے اس گروہ کے نوجوان سیاسی عمل سے بڑی حد تک لاتعلق رہتے۔ عمران خان کی کرشماتی شخصیت اُنہیں زندگی میں پہلی بار عوامی جلسوں میں کھینچ ضرور لائی لیکن پی ٹی آئی ایک منظم جماعت نہ بن سکی، اور پھر اس کے دوسرے درجے کے رہنمائوں کی رسہ کشی لاعلاج مرض ثابت ہوئی۔چنانچہ پی اے ٹی کے علاوہ شریف برادران کوکسی سیاسی جماعت سے احتجاجی مظاہروں کا کوئی خوف نہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کچھ وقت پاکستان میں ٹھہریں اور ماڈل ٹائون کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے دبائو بڑھائیں۔ ورنہ ٹرمز آف ریفرنس پرہونے والی بحث سے ان کاکیا جاتا ہے ، ہوتی رہے ۔ شریف برادران نے کبھی پہلے سیاسی خود کشی کی ہے ، نہ اس مرتبہ کریں گے ۔ تاہم یہ ہے کہ اگر یہ جمود طاری رہا تو پھربات صرف احتجاج کی طرف ہی جائے گی۔
پاکستان عوامی تحریک سترہ جون ، ماڈل ٹائون سانحے میں ہلاک ہونے والے والوں کی برسی ، کوچیئرنگ کراس ، لاہور ، پر دھرنا دے گی۔ اس سے احتجاجی تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ تاثر ہے کہ فی الحال شریف برادران کو خطرے کا احساس نہیں، کیونکہ وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اس مرتبہ بھی ہنگام کارکوٹال سکتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ فرق یہ ہے کہ اکھاڑا اسلام آباد نہیں ، لاہور میں سجے گا۔ اس سے پہلے پنجاب پولیس اسلام آباد دھرنوں کو نہیں روک پائی تھی، تو کیا اس مرتبہ لاہور کا موسم کچھ زیادہ گرم نہیں؟ کیا نئی قائم کردہ ڈولفن فورس رائے ونڈ کی طرف جانے والے مارچ کوروک پائے گی؟اس وقت حکمرانوں کے لئے پریشانی کے بادل گہرے ہورہے ہیں۔ کیا حکمران جماعت میں سے کوئی موسم پر نظر رکھے ہوئے ہے؟
تازہ ترین