پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو چند روز پہلے تک دہشت گردی کی نئی لہر کے تناظر میں تجویز کردہ کل جماعتی کانفرنس تک میں شریک ہونے کو تیار نہ تھے ، ان کا یہ تازہ اعلان کہ ملک کی خاطر وہ ہر ایک سے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں اگر نیک نیتی سے کیا گیا ہے تویقینا خیرمقدم کے لائق ہے۔ ویڈیو لنک پر خطاب میں انہوں نے آئندہ ہفتے سے انتخابی مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ’’ ملک کومشکلات سے نکالنا ہے تو قوم کا متحد ہونا ضروری ہے۔ جب تک عام انتخابات سے حکومت نہیں آتی سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ہمیں اپنے خرچے کم کرنا ہوں گے، ہر وہ ادارہ جو بوجھ بنا ہوا ہے اسے ٹھیک کرنا ہوگا، انقلابی تبدیلیوں کیلئے سب کو اکٹھے ہونا پڑے گا۔ جنہوں نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کرایا میں ملک کی خاطر انہیں بھی معاف کرنے کیلئے تیار ہوں۔دو صوبوں کی بجائے پورے ملک میں انتخابات کرائے جائیں، سب سے بات اور سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں۔ ‘‘ عمران خان کی جانب سے قومی اتحاد کی جس ضرورت کا آج اظہار کیا گیا ہے، اس کے فقدان کی سب سے بڑی وجہ فی الحقیقت ان کا وہ طرز سیاست ہے جس نے پچھلے چند برسوں میں قومی انتشار و تقسیم کو اس انتہا تک پہنچادیا ہے جس کا تصور بھی اس سے پہلے ممکن نہ تھا۔ ملک کی جمہوری قوتوں کو بے اعتبار کرنے کی پرُزور مہم چلا کر اور سیاسی شخصیات کی ایک بڑی تعداد کو ترغیب و تخویف کے حربوں سے مطلوبہ راستے پر لاکر عمران خان کو جس طرح اقتدار دلایا گیا تھا، اس کے بیشتر حقائق سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ وہ ادارے جو اس منصوبے کے خالق تھے، خود ان کے ذمہ داروں کے اعترافات منظر عام پر آچکے ہیں۔ 2014ء میں ملک کی منتخب حکومت کو گرانے کی ناکام کوشش میں تحریک انصاف کی قیادت کا کردار اور پھر2018ء کے انتخابات میں اس کی کامیابی کیلئے اداروں کی کھلی اور سراسر ناجائز کارروائیاں اب ایک کھلا راز ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی عمران خان قومی یکجہتی کی ضرورت محسوس کرلیتے اور سراسر جانبدارانہ و غیرمنصفانہ احتساب کے ذریعے سے اپوزیشن کا قلع قمع کرنے کی کوششوں کے بجائے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے پارلیمان میں اسے اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے، متعدد مواقع پر اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو کی گئی تعاون کی پیشکشوں کو ٹھکرانے کے بجائے ان کاخیر مقدم کرتے تو ملک میں یقینا آج قومی یکجہتی کے حالات کہیں بہتر ہوتے۔ جہاں تک موجودہ معاشی زبوں حالی کا تعلق ہے تو ملک کو اس نوبت تک پہنچانے میں عمران خان کے پونے چار سالہ دور حکومت کا جو حصہ ہے‘ ہر باشعور شخص اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اس دور کی ناکام معاشی پالیسیوں ہی کی وجہ سے ملک آئی ایم ایف کا دست نگر بنااور معاشی ابتری ہی عمران خان کو لانے والوں کو ان پر سے اپنا دست شفقت ہٹالینے کا باعث ہوئی جس کے بعد ملک میں پہلی بار ایک حکومت کی آئینی طریقے سے رخصتی عمل میں آئی۔ دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح اس تبدیلی کو قبول کرکے تحریک انصاف پارلیمان میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتی تو ملک میں کوئی انتشار نہ ہوتا اور پارلیمان کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد عام انتخابات منعقد ہوجاتے لیکن تحریک انصاف کے قائد نے امریکی سازش کی بے بنیاد کہانی سے لے کر لانگ مارچ اور دوصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل تک مسلسل سیاسی انتشار کا بازار گرم رکھااور ان کے اس طرز سیاست کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔تاہم حکومت کو عمران خان کے بات چیت پر آمادگی کے اعلان پر مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں بلاتاخیر مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے۔ دو صوبوں کے بجائے پورے ملک میں انتخابات کا انعقاد یقینا بہتر ہوگا لیکن اس کیلئے وقت کا انتخاب مفاہمت سے کیا جانا چاہیے اور فیصلے کا واحد پیمانہ قومی مفاد ہونا چاہئے۔