• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک افغان سرحدوں پر پچھلے کئی روز سے نظر آنے والی کشیدگی کی کیفیت سے بعض مبصرین ان توقعات میں کسی قدر ضعف کا تاثر لے رہے ہیں جو آپریشن ضرب عضب کی بڑی حد تک کامیابی اور دہشت گردوں سے کلیئر کرائے گئے علاقوں میں بحالی و آبادکاری کا مرحلہ شروع ہونے کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان جس خطے میں واقع ہیں اس کے جبری طور پر تیسری عالمی جنگ کا تھیٹر بنائے جانے کے بعد مذکورہ دونوں ملکوں میں ہر سطح پر ان کوششوں میں تعاون نظر آنا چاہئے تھا جو اس دلدل سے نکلنے کی ضرورت ہیں۔ مگر افغانستان میں سوویت مداخلت کے وقت سے لیکر نائن زیرو کے واقعے اور بعد کے حالات میں پاکستان کی میزبانی اور پرخلوص امن کوششوں کا مشاہدہ کرنے والے افغان رہنما مشترکہ کاوشوں کے جذبے کے اظہار کے باوجود جب اقتدار میں آئے تو بعض قابل فہم مجبوریاں اس باب میں حائل رہیں۔ اسلام آباد نے دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں جن اسٹرٹیجک پارٹنرز کی خاطر غیرمعمولی قربانیاںدیں وہ صرف ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتے اور پاکستان پر اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالتے رہے۔ اچھا ہوتا کہ اس بات پر غور کرلیا جاتا کہ جو نتائج کئی ممالک کی افواج ہر قسم کےوسائل کی موجودگی اور برسوں کے قیام کے بعد حاصل نہیں کرسکیں، وہ نتائج چند ماہ کے اندر حاصل کرنے کا مطالبہ ایسے ملک سے کیونکر درست ہوسکتا ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں اور جس کی راہ میں طرح طرح کی دشواریاں بھی کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔ ان مسائل اور دشواریوں کی فہرست جتنی طویل ہے ، ان دل شکنیوں کی کہانی ان سے بھی لمبی ہے جو بعض ممالک سے دیرینہ فوجی تعلقات ، خطے میں بہتر حالات کی خواہش اور عالمی امن و استحکام کے لئے قربانیاں دینے کا صلہ بنیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے اس کے خاتمے کی تاریخیں دینے اور اس کے مشرقی بازو کو الگ کرنے میں ملوث ہونے کا فخریہ اعتراف کرنے والے جس ملک کی داخلی سانحات تخلیق کرنے کی شہادتیں خود اس ملک کی بعض تفتیشی رپورٹوں اور عدالتوں میں دیئے گئے بیانات کی صورت میں موجود ہیں اور پاکستان میں پکڑے گئے اعلیٰ بھارتی حاضر سروس افسر سمیت دہشت گردوں کے اعترافات کی صورت میںدنیا کے سامنے ہیں، اس کی ہمنوائی نہ صرف افغان ایجنسیوں کی ویسی ہی سرگرمیوں بلکہ کابل حکومت کے ویسے ہی الزامات کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ پاکستان نے اپنی سرزمین پر خاصا اندر باڑھ لگانے اور گیٹ تعمیر کرنےکا کام شروع کیا تو کابل کو اس کاخیرمقدم کرنا چاہئے تھا کہ اس طرح دونوں پڑوسی ملکوں میں دراندازی ، اسمگلنگ اور سیکورٹی مسائل کا سبب بننے والی نقل و حرکت روکنے میں مدد ملے گی۔ مگر افغان حکومت کی طرف سے سرحد پر بھاری توپ خانے کے ذریعے مسلسل فائرنگ اور فوجی اجتماع کی صورت میں جو مزاحمت کی گئی اس کا مفہوم اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی دراندازی ، بھارتی قونصل خانوں میں تیار کئے گئے دہشت گردوں کی سرگرمیوں اور اسلحہ و منشیات کی نقل و حمل سمیت مسائل کا سبب بننے والے واقعات کی روک تھام کے لئے تیار نہیں۔ اگرچہ افغان فورسز کے ہاتھوں پاک فوج کے میجر علی جواد چنگیزی کی شہادت اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کا زخمی ہونا ایسا واقعہ نہیں جسے ٹھنڈےپیٹوں برداشت کیا جاسکے مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ دنیا کی بہترین فوج کے حامل ملک پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان پر سالہال سے سرمایہ کاری کی ہے۔عشروں سے 30لاکھ افغانوں کی میزبانی کی ہے اور سپر پاور سوویت یونین کی مداخلت کے وقت اپنی سلامتی کے لئےسنگین خطرات مول لئے ہیں۔ اس لئے کابل حکومت کی تازہ اشتعال انگیزی کا وہ جواب نہیں دیا جانا چاہئے جو شہ دینے والے دشمنوں کے منصوبے کا حصہ ہے۔ حکمت عملی سے ایساراستہ نکالا جائے جس میں آرمی چیف کے وژن کے مطابق بارڈر منیجمنٹ بھی بہتر بنایا جاسکے اور دونوں ملکوں کو بیرونی سازشی خطرات سے بھی محفوظ رکھا جاسکے۔
تازہ ترین