• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئندہ مالی سالی کے لئے خیبر پختونخواکے بجٹ میں عوام کو جہاں انفرا اسٹرکچر ، تعلیم، صحت، زراعت، ماحولیات، جنگلات اور بعض دوسرے شعبوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے بہتری کی نوید سنائی گئی ہے وہاں صوبے کو درپیش مالی مشکلات پر قابو پانے کے لئے ان پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی ڈالا گیا ہے۔ اس لحاظ سے وزیرخزا نہ مظفر سید جنہوں نے منگل کو صوبائی ا سمبلی میں نیا بجٹ پیش کیا، اگر اسے ’’متوازن‘‘ قرار دیتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ خیبر پختونخوادہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر واقع ہے، جہاں امن وا مان کی صورت حال ایک مدت سے خراب چلی آرہی ہے اور ا س کے منفی اثرات نے صوبے کی سماجی زندگی ، معیشت اور کاروبار کوبری طرح متاثر کیا ہے۔ ان اثرت کو زا ئل کرنا کسی مالی جادو گر کے بس کی بات نہیں۔ پھر بھی صوبے کی حکمران پارٹی تحریک انصاف نے جو تبدیلی کے پرکشش ایجنڈے پر کام کر رہی ہے جماعت ا سلامی سمیت اپنی اتحادی جماعتوں کی مدد سے پوری کوشش کی ہے کہ بجٹ کو عوام کے لئے امید کا پیغام بنائے۔ نئے بجٹ کا مجموعی حجم 5کھرب 5 ارب روپے ہے اس میں سے 3 کھرب 44 ارب روپے تو انتظامی اخراجات پر اٹھ جائیں گے، باقی 161 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص ہوں گے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے جو توقع سے کم ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ دوسرے صوبوں پر سبقت لے جانے کے لئے 15 فیصد اضافہ کیا جا ئے گا۔ ملازمین کی کم سے کم تنخواہ وفاق اور دوسرے صوبوں کی طرح 14ہزا ر روپے مقر ر کی گئی ہے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اشک شوئی کے سوا کچھ نہیں۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لئے 36ہزار نئی اسامیاں پیدا کی جائیں گی جو زیادہ تر تعلیم ا ور صحت کے محکموں کے لئے ہوںگی ایک اور اچھا قدم نوجوانوں کو چھوٹے کاروبارکے لئے 2 سے 22 لاکھ روپے تک بینک آف خیبر سے بلا سود قرضے دلوانے کی تجویز ہے۔ ہیلتھ ا نشورنس پروگرام کا دائرہ پورے صوبے تک پھیلا یا جائے گا۔ جس سے لاکھوں ضرورت مند فائدہ اٹھا سکیں گے۔ پچھلے سال کے بجٹ میں جو اہداف مقرر کئے گئے تھے ان میں سے کئی پورے نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ سے حکومت کو گزشتہ سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی رقوم میںکمی کرنا پڑی۔ صوبائی محاصل کی وصولی میں گزشتہ سال دو گنا اضافہ ہوا جو ایک اہم کامیابی ہے۔ مالی وسائل کے حصول کے لئے نئے بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے علاوہ موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں رد و بدل تجویز کیا گیا ہے جس سے 2 ارب 2کروڑ روپے سے زائد اضافی آمدنی متوقع ہے۔ فنانشل بل کے مطابق گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس، جائیداد کی خرید و فروخت کے انتقالات اسلحہ لائسنسوں کی تجدید اور سٹامپ پیپر پر فیس کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی مد میں ساڑھے 22 کروڑ ، ریونیو اور سٹیٹ پراپرٹی کی مد میں77 کروڑ 30لاکھ اور توانائی کے شعبے میں 93کروڑ 70لاکھ روپے کے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ ان ٹیکسوں سے بھی لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے مگر متاثرین کی اس سے بھی زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہو گی جو کئی دوسرے شعبوں سے وابستہ ہیں بجٹ دستاویز کے مطابق ویزا درخواستیں وصول اور پراسیس کرنے والے اداروں، امیگریشن اور کارگو سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں پر بھی سیلز ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں، وکلا ، انجینئرنگ، سافٹ ویئر اور آئی ٹی کنسلٹنٹس، کاسمیٹکس کے پیشے سے وابستہ اور پلاسٹک سرجری کرانے والوں کو پروفیشنل ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ہوٹلوں، ریستورانوں ، کلب، شادی ہالز، مشروبات، ریڈیو اور ٹی وی پر نشری اشتہارات، سائن اور بل بورڈز کے ذریعے تشہیر، ہوائی جہازوں یا ٹرینوں میں سفر، ٹرینوں سے اشیا کی ترسیل، کال سنٹرز ٹریننگ اینڈ ووکیشنل سینٹرز، کوچنگ سروسز فلم ڈرامہ اور سٹیج شو پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا لیکن جو لوگ خیبر پختونخوا کے بجٹ میں مراعات کی زیادہ توقعات لگائے بیٹھے تھے انہیں یہ ٹیکس گراں گزریں گے اس لئے صوبائی اسمبلی میں پیش کی جانے والی تجاویز کی روشنی میں اگر ان تجاویز میں ردوبدل ممکن ہو تو کر لینا چاہیئے۔ اس سے دوسرے صوبوں کے لئے بھی اچھی مثال قائم ہوگی۔
تازہ ترین