• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ اور کمیٹی برائے دفاع کو وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز،سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری اورسیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد عالم نے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس بریفنگ سے عوام کو مدتوں کے بعد پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر یہ معلوم ہوا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری خارجہ صورتحال کس طرح کے گرداب میں گرفتار ہے۔حکمرانوں کی زبانی پہلی مرتبہ عوام کو پتہ چلا کہ امریکہ کے کیا مطالبات ہیں۔ سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ اور میزائلوں کی رینج کو کم کیا جائے۔ بقول سیکرٹری خارجہ پاکستان نے امریکہ کے ان سارے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔
اس سے پہلے آرمی چیف بھی امریکی وفد کو کھری کھری سنا چکے ہیں۔ انہوں نے ڈرون حملے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب اگر کوئی ڈرون حملہ ہوا تو اس سے پاک امریکہ تعلقات بے حد متاثر ہوں گے۔ گویا انہوں نے بین السطور تک کہہ ڈالا کہ ایسا کوئی حملہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان جدائی پیدا کر دے گا۔اعزاز چوہدری نے امریکہ کے بھارت کی طرف جھکائو کو بہت سی مشکلات کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔چوہدری صاحب کی جذباتی گفتگو میں میر تقی میر کا رنگ جھلک رہا تھا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتہ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا
اعزاز چوہدری نے تو بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے پاکستان دشمنی میں امریکہ سے محبت کی پینگیں بڑھا تولی ہیں مگر بھارت کو بھی جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ اس یار طرحدار یا یار ےبے وفا سے دوستی فائدے کا نہیںگھاٹے کا سوداہے۔
سینیٹ بریفنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ اور بھارت کو اصل رنجش چین کی طرف سے پاکستان میں قائم کی جانے والی اقتصادی راہداری ہے۔ اعزاز چوہدری نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 60ہزار افراد شہید ہوئے اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
جب کسی فوجی جرنیل یا سیاست دان کی طرف سے امریکہ کو یوں کھری کھری سنائی جاتی ہیں تو عوام کا ردعمل بڑا مثبت ہوتا ہے۔ انہیں خوشی ہوتی ہے کہ دیر آید درست آید کہ تاخیر سے سہی بالآخر حکمرانوں کے لیول تک بھی وہی بات آ پہنچی ہے جو مدتوں سے عوام کے دلوں میں موجود تھی۔
جذبات کا کتھارسس اپنی جگہ مگر یہاں بعض اہم سوالات سر اٹھاتے ہیںجن کا جواب دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے امریکہ، بھارت، افغانستان اور کسی حد تک ایران کے خلاف غم و غصہ نکالنے سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کہ ہماری خارجہ پالیسی آج جو اس موڑ پر پہنچی ہے۔ کہ ہمارے تعلقات امریکہ سے کشیدہ ہو گئے ہیں۔ بھارت سے بھی کشیدہ ہیں اور افغانستان سے بھی کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ بھی تو لینا چاہئے کہ ہماری خارجہ پالیسی ایسی کسمپرسی سے دوچار کیوں ہوئی۔ اس میں ہمارے حلیفوں اور حریفوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہو گا مگر کیا اس میں ہماری نا اہلیت کابھی کوئی حصہ ہے یا نہیں۔ ڈپلومیسی کی دنیا میں پروفیشنل مہارت اور سیاسی ہنرمندی کی بے پناہ اہمیت ہوتی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کی تاریخ اسی طرح کے اتار چڑھائواور نشیب و فراز کاشکاررہی ہے۔
جناب سرتاج عزیز کا یہ شکوہ ہماری دلی بیتابی کا غماز تو ہے مگر یہ حقیقت شناسی سے بہت دور بھی ہےسرتاج عزیز کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ کا جب مطلب نکل جاتا ہے تو وہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ ڈپلومیسی کی دنیا میں ایسے ہی ہوتا ہے اور بالخصوص امریکہ کا انداز دوستی تو ہے ہی ایسا۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ امریکہ ،سعودی عرب جیسے قریب ترین دوست سے بھی سردمہری کا رویہ اختیار کریگا مگر ایسا ہو چکا ہے۔ اس لئے ہمارا یہ شکوہ بے جا ہے کہ امریکہ مطلب نکل جانے کے بعد آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے امریکہ کی دوستی کو دو ملکوں کی ڈپلو میٹک فرینڈ شپ سمجھنے کے بجائے ایک رومانٹک ریلیشن شپ کیوں سمجھا۔
پاکستان کے ساتھ کئی معاہدوں میں شامل ہونے کے باوجود امریکہ نے 1965کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی۔ پھر 1971میں خلیج بنگال میں امریکہ کے بحری بیڑے کی موجودگی کے باوجود بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کو عبور کر کے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں اتار دیں اور پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے دوچار کیا مگر امریکہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم نے پھر بھی کوئی سبق نہ سیکھا۔ پھر ہم نے1980کی دہائی میں جہاد افغانستان میں اپنا تن من دھن لگا دیا اور جب روسی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں تو امریکہ جنرل ضیاءالحق اور عسکری قیادت کے تجزیے کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے افغانستان کو خانہ جنگی کے سپرد کرکے خود وہاں سےچلتا بنا۔ پھر بھی ہم نے سبق نہ سیکھا اور2001میں امریکی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے بلکہ امریکہ کو حیران کرتے ہوئے اس کے وہ مطالبات بھی قبول کر لئے جو اس نے کئے بھی نہ تھے۔ ہم نے افغانستان پر حملوں کے لئے امریکہ کی ہر ممکن مدد کی۔
دیکھئے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں یہی اتار چڑھائو چلتا رہتا ہے اور ہم بار بار پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے کوئے ملامت کو چلے جاتے ہیں۔ اور پھر نئے چرکے او ر نئے صدمے اٹھاتے ہیں اور جب زخموں کی شدت حد سے بڑھتی ہے تو پھر ہم زخموں کی نمائش کرنے پر مجبور بھی ہوجاتے ہیں۔
ایک لحاظ سے یہ بہت اچھا ہو گیا ہے کہ امریکہ کو معلوم ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک مخلص اور سادہ دل دوست ضرور ہے مگر دوستی افراد کی ہو یا اقوام کی اس کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان حدود سے ماورا کوئی مطالبہ کرکے دوستی کو برباد نہیں کرنا چاہئے۔ عربی زبان کی ایک خوبصورت مثل ہے کہ اگر تمہارا بھائی شہد ہے تو سارے کا سارا ہی نہ کھاجائو کیا امریکہ کو معلوم نہیں کہ اس سارے خطے میں پاکستان کی جو تذویراتی حیثیت ہے اسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اگر امریکہ نے لوٹ کر اس دوست کے پاس واپس آنا ہےتو پھر ڈپلومیسی کی دنیا میں بھی غیروں کے کہنے پر آزمودہ دوستوں سے آنکھیں نہیں پھیری جاتیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی مثالی ہے۔ تاہم اگر سعودی عرب کی روایتی گرم جوشی سرد مہری میں بدل جائے تو اس کا فوری طور پر نوٹس لیا جانا چاہئے۔ جناب سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے لوگ پاکستان کے موقف کو بہتر انداز میں پہنچانے کے لئے وزارت خارجہ سے تعاون کریں۔ ہم ان کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں کئی بار اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں۔ہمیں امریکہ جانے کا موقع ملتا ہے وہاں پاکستانی امریکی اور دیگر امریکی دوستوں کے ساتھ مل کر ہم پاکستان کے موقف کو حکومت کے ایوانوں، پالیسی ساز اداروں اور دیگر فورمز تک موثر طریقے سے پہنچا سکتے ہیں۔
احباب جانتے ہیں کہ ہم نے عرب لیگ پر پی ایچ ڈی کی ہے اور اللہ نے ہمیں عربی زبان پر دسترس بھی عطا کی ہے، ہم نےبیس برس سے زائد عرصہ عرب دنیا میں گزارا ہے۔عربوں کے ساتھ ہمیں حسن ملاقات کی نعمت بھی حاصل ہے۔ جناب سرتاج عزیز نے تو یہ پیشکش کر دی ہے مگر وزارت خارجہ کے بقراط ہم جیسے خدمت گاروں کو گھاس نہیں ڈالتے۔
اورلینڈو امریکہ میں فائرنگ کے انتہائی افسوسناک واقعہ پر ہم امریکی قوم کے دکھ اور صدمے کی اس گھڑی میں ان سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں جہاں تک پاکستان امریکہ تعلقات کا تعلق ہے وہ برسوں سے اسی نہج پر چل رہے ہیں بقول شاعر
ذرا میں لگائے زخم ذرا میں دے مرہم
بڑے عجیب روابط مرے صبا سے ہیں
تازہ ترین