• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے باشندوں کی تنقیص اور تنسیخ اس ملک کی تاریخ کا بہت ہی توہین آمیز باب ہے، دقیع کالم نگار سے بلکہ اپنا دکھ بانٹنے کو دل چاہتا ہے، کم سوادی کے ایسے مظاہرے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مطالعہ بسا اوقات شدت کے ساتھ یہ سوال پوچھنے پر ابھارتا ہے، کیا تم اس دھرتی ہی کے فرزند ہو؟ یہ ذہنی کیفیت ایک طرز فکر کا شاخسانہ تھی جب لکھا گیا: ’’یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ملک میں جمہوریت کی گاڑی پر چوروں کی بارات سوار ہے، اس بارات میں چوروں کے وکیل بھی ہیں، ویلیں دینے والے، ویلیں سمیٹنے والے اور بینڈ باجے والے بھی شامل ہیں۔‘‘ کیا اس قومی پارلیمنٹ، وطن کی چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں ’’چوروں کی باراتیں‘‘ اتری ہوئی ہیں جنہیں پاکستان کے عوام نے ووٹ دے کر چوریاں کرنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔
کیا جمہوریت کی حقیقی صورت اور کہانی یہی ہے؟ کیا پاکستان کا قیام کسی دو نمبر جمہوری یا غیر سیاسی شخصیت اور افراد کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا؟ کیا گوادر کی بندرگاہ کسی غیر سیاسی شخص کے وژن کا نتیجہ ہے؟ کیا پاکستان کا ایٹمی طاقت بن کر ہر قسم کے سامراج کے بالمقابل بہرحال ناقابل تسخیر ہو جانا یا کم از کم تر نوالے کے تقاضے سے ہمیشہ کے لئے نکل جانا کسی غیر جمہوری یا غیر سیاسی فرد کا کارنامہ ہے؟ کیا پاکستان دو لخت ہونے کے بعد اس کے 90ہزار سیاسی و عسکری قیدیوں کی عزت اور سلامتی کے ساتھ واپسی، کسی غیر سیاسی شخصیت کا تاریخ ساز کارنامہ ہے؟ کیا میزائل ٹیکنالوجی کا حصول کسی غیر جمہوری لیڈر کا کرشماتی باب ہے؟ آج پاکستان میں رسل و رسائل، تعلیمی ارتقاء ذرائع آمدورفت، دیہات تک سڑکوں کا جال اور ملک میں ’’اقتصادی راہداری‘‘ کے متوقع روشن ترین مستقبل کے نتیجے میں ایک امیر ترین اور جدید ترین متوقع پاکستان کا خواب کسی غیر سیاسی شخصیت کی منصوبہ بندی ہے؟ کیا حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، آصف علی زرداری اور شریف برادران، یہ غیر سیاسی یا غیر جمہوری لیڈرز ہیں، جن کے خیال نے عرصہ پہلے چین کی فضائوں میں پرواز کی، پھر یہ پرواز تاریخ کے تسلسل میں ذوالفقار علی بھٹو، آصف علی زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کی کامیاب جدوجہد کے نتیجے میں آج ’’اقتصادی راہداری‘‘ کے حیرت کدے میں ڈھلنے جا رہی ہے!
کیا پاکستان کے عوام، سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کی آمریت نے قید و بند سے لے کر پھانسی کے رسے تک کا سفر آئینی جمہوری نظام کے لئے طے کیا اور طے کر رہے ہیں یا اس کا مقصد نگران حکومتیں، مارشل لائوں کی آمد اور ٹیکنو کریٹس کی فرمانروائی تھا؟ آخر برسوں سے پاکستانی باشندے کے ووٹ، لاکھوں کروڑوں پاکستانی عوام کے سیاسی رہنمائوں، پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی صورت میں پاکستان کے قومی سیاسی ادارے کی اتنے بےدید پن کے ساتھ تذلیل، تنقیص یا تنسیخ کے اس غلیظ ترین کاروبار کا منبع کون ہے؟ اور اگر کوئی نہیں (اس ’’ناممکن‘‘ کو فرض کر لیتے ہیں) تب کیا چند افراد، چاہے وہ پرنٹ ورلڈ میں جگہ پا گئے ہوں یا انہیں مقدر ٹی وی سکرینوں پر لے گیا ہو، انہیں پوری قوم کے اکثریتی نمائندوں کی ذلت و بے عزتی کا حق کس نے دیا ہے؟ کیا وہ جواباً اسی منظر کا کردار بننا پسند کریں گے؟ پاکستانیوں کے ووٹ اور ان کے سیاسی رہنمائوں کی ملکی، قومی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی، بین الاقوامی، دینی خدمات اور کارناموں کی ضخیم ہی نہیں نہایت مرعوب کن کتاب وجود میں آ سکتی ہے، مقصد کسی تصادم کو ہوا دینا نہیں لیکن مقصد کسی مسلسل مبالغہ، جھوٹ اور شر انگیزیوں کو برداشت کرنا بھی نہیں ہونا چاہئے، کسی کی قربانیوں سے انکار نہیں، یہ قوم اس لحاظ سے بیوقوف کی حد تک جنونی اور جذباتی ہے مگر قربانیوں کی منزل کسی ملک اور ریاست کے آئینی نظام کی شکست و ریخت کے اختیار کا حصول اور اظہار نہیں ہوتا، آپ جب کسی منتخب حکومت کے افراد کو کسی ریاستی ادارے میں اپنے آئینی مقام کے بجائے طاقت کے بوجھ تلے دبتا یا کراہتا دیکھیں،ا ٓپ کو منفی خوشی کے بجائے اپنے رسوا کئے جانے کے احساس میں مبتلا ہونا چاہئے، کیا آپ کو صراط مستقیم کی اطلاع اور وضاحت کرنے کے دوران میں ڈنڈی مارنے کی عادت سے باز آ کر موت کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں؟ کیا آپ کو معلوم نہیں؟ ایک قوم نے پوری توانائی، بیداری، تندہی اور جاں فروشی کے ساتھ، قریب قریب اڑسٹھ سال پہلے آئینی جمہوری پارلیمانی نظام کے قیام کی خاطر کے لئے اپنے شب و روز ایک کر دیئے تھے۔ میاں نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں، ’’ن‘‘ لیگ کی حکومت پاکستانی عوام کے اکثریتی ووٹوں سے منتخب حکمران جماعت ہے، اسی کلیئے کا اطلاق پاکستان کے چاروں صوبوں کی حکومتوں پر ہوتا ہے، جو حکمرانی میں نہیں ہیں۔ جماعتوں اور افراد کو بھی پاکستانی عوام کے ووٹوں نے اسمبلیوں میں بھیجا ہے، آپ منتخب حکمرانوں کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتے ہیں، آپ عدم اعتماد، کا ووٹ لائیں، نہیں لا سکتے، تب آپ کو نفرت اور غضب میں ڈوبا لہجہ اپنانے یا غیظ و غضب میں ڈوبی ہوئی طبیعت سے پیدا شدہ آتشی دلیلوں کے ذریعہ پاکستان کے آئینی جمہوری نظام کا تسلسل ملتوی یا ختم کرنے کی قوم دشمن اور نفس پرستانہ مہم جوئی سے باز رہنے کی ضرورت ہے، پاناما لیکس کوئی ایشو نہیں، یہ ایسا ایشو ہے جس کے حوالے سے ایک اپروچ یہ بھی ہے یعنی ’’جن مذہبی رہنمائوں نے 77کے طرز پر نظام مصطفیٰ کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے میرا تو ایک طالب علم کی حیثیت سے ان سے محض یہ سوال ہے کہ اس تحریک کے بطن سے جناب امیر المومنین ضیاء الحق نے جنم لیا تھا، تکلف برطرف اب تحریک نظام مصطفیٰ دوئم سے کس امیر المومنین ثانی کا ظہور ہو گا؟
پاناما لیکس اس مفہوم اور ہدف ہی ہیں ایشو ہوتا جس مفہوم اور ہدف کا علم عمران خان نے اٹھایا ہوا ہے، اگر اس میں چین اور اس کے صدر ژی چن اور پیوٹن سے شروعات نہ کی جاتیں؟ یہ ایک بین الاقوامی اسرار ہے جسے بین الاقوامی اسراریت کے خالقوں نے تولد کیا ہے؟ وہ دن کا اختتام ’’میاں نواز شریف کو ٹرم پوری ہونے سے پہلے ’’گندا‘‘ کر کے ان کی حکومت کا بوریا بستر گول کرنا چاہتے ہیں، مقصد گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری جیسے انقلابی منصوبوں کو خاک میں ملانا ہے!
اور ایک مختصر سی گفتگو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے موضوع پر!
پاکستان پیپلز پارٹی ایک قومی جماعت ہے، اس کے چیئرمین کا بھی مرتبہ و مقام بھی یہی ہے، یہ جماعت اور اس کی قیادت وفاق کی علمدار اور محافظ رہی ہے، ہمیشہ رہے گی، بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں پنجابستان کی اصطلاح سے، پاکستان پیپلز پارٹی کے تناظر میں ’’تخت لاہور‘‘ کے کردار اور اعمال کی جامع تصویر کشی کی ہے، اس اصطلاح کے حوالے سے انہوں نے ’’تخت لاہور‘‘ کے اس طرز فکر اور طرز عمل کو قوم کے سامنے رکھا ہے جس طرز فکر اور طرز عمل کے باعث پیپلز پارٹی اور چھوٹے صوبوں کو بے حد ظلم اور محرومیوں سے گزرنا پڑا، جو لوگ بلاول کے اس ردعمل کو پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین کی وفاقیت کی تردید قرار دے رہے ہیں، وہ وفاقیت کے پس منظر میں تاریخ کے ثبت شدہ دستخطوں کا وجود یاد رکھیں، انہیں پاکستانی عوام کے اس سلوگن کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہو گی ’’بے نظیر۔۔۔ چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ ’’نواز شریف سے بلاول تک‘‘ ، ابھی داستان جاری ہے!
تازہ ترین