• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو کچھ آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں اس میں وہ تمام عناصر شامل ہیں جن سے خواب تعمیرپاتے ہیں ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان واقعات کو اپنی زندگی میں رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ وہ واقعات جو عشروں سے طاری اس جمود کو توڑ سکتے ہیں جس میں اشرافیہ اپنا اقتدار مسلط کئےہوئے ہے ۔ وہ اشرافیہ جس نے پاکستان کے دامن کو ہمیشہ داغ دار کیا۔اور اسی جمود کے ٹوٹنے سے ہی ترقی کی راہ ہموار ہوگی ۔

جب گیارہ ماہ قبل عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو کسی کو احساس نہیں تھا کہ ا ن کی تصویر عوام کے تخیل میں اس طرح سما جائے گی جیسا کہ اب دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جسے موجودہ واقعات نے ہلا کر نہ رکھ دیا ہو۔ سینکڑوں ، ہزاروں افراد ایک مقصد کی خاطر اپنی جانیں بھی نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ مقصد عمران خان نے ان کے سامنے رکھا ہے۔ یہ جذبہ ماضی کی لوٹ مار اور قومی سلامتی کو بیرونی ایجنڈوں کے تابع کردینے سے بہت مختلف ہے۔ اس کا ہدف پاکستان کو ایک ایسا خود مختار اور باوقار ملک بنانا ہے جو ایسے فیصلے از خود کرنے کا حق رکھتا ہو جواس کی اقتصادی اور تزویراتی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں، جو بنیادی حقوق سے محروم ہاتھ پائوں مارتے ہوئے عوام کی فلاح ممکن بنا سکیں ۔

دوسری طرف خان کی پارٹی کو ’’بیرونی تربیت یافتہ شرپسندوں کا گروہ ‘‘قرار دیا گیا ہے۔ اس کا اعلان کسی اور نے نہیں بلکہ اس ٹولے نے کیا جسے ان کے سرپرستوں اور آقاؤں نے اقتدار پر بٹھارکھا ہے اور وہ وسائل اور اختیارات کا ڈھٹائی سے کھلا استعمال کررہے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوںنے ماضی میں اپنے کئی ایک ادوارمیں ملک کا خون چوسا۔ وہ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت کالعدم قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرنے پر تل چکے ہیں۔ چھ گھنٹے طویل اس اجلاس میں سیاسی کھلاڑیوں کے علاوہ عسکری قیادت بھی موجود تھی۔

تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی بات ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے جب ریاستی نظام کو خان، ان کی پارٹی اور ان کے پیروکاروں کے خلاف کھلی چھٹی دے دی گئی ہے ۔ ان کے گھروں پر قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے آدھی رات کو چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اُنھیں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے خصوصی طور پر بلائے گئے مشترکہ اجلاس سے پہلے وزیر داخلہ کے مضحکہ خیز بیانات سامنے آئے جن میں اُنھوں نے تحریک انصاف کو ایک قانون شکن جماعت قرار دیا اور سپریم کورٹ کو پیغام دیا کہ تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی کرائے جائیں۔ظاہر ہے یہ آئین اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی جس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہےکہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے دن کے اندر کرائے جائیں۔الیکشن کمیشن نے بھی آئین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب میں انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کردیے ہیں۔ اس سے وہ آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے جس میں ادارے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے ۔ اس کے یقیناً سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک گیر پر تشدد احتجاج ہوسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے لئےیہ اپنی اتھارٹی نافذ کرنے اور آئین کے تقدس کو بحال کرنے کا وقت ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ کوئی ’’نظر یۂ ضرورت‘‘ اس کا راستہ نہیں روکے گا۔

منصوبہ سازوں کا جس طرح خان کو اقتدار سے ہٹانا غلطی ثابت ہوا، اسی طرح اُن پر پابندی لگانا بھی غلطی ہوگا۔ جذباتی اشتعال کے اس لمحے میں شاید ہی کوئی اور چیز ان کے لئےاتنی سوہان روح ہو جب خان کو سیاسی طور پر قابو کرنے کی ان کی تمام سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ ایک جیتا جاگتا افسانوی کردار بن چکے ہیں۔

لیکن پھر ہوسکتا ہے کہ یہی وجہ ہو کہ ایک ایسی سیاسی قوت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت اور وحشیانہ اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہو جس نے لوگوں کے تصور کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی۔ اگر کسی کو اس جذبے کی شدت کا ادراک ہو جو ہر بار لوگوں کو اپنے مقصد کے لئے باہر نکلنے کے لئے مہمیز دے سمجھ لیں کہ ہم وہ خواب دیکھ رہے ہیں جو تکمیل کے قریب ہے۔ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی گئی تو سڑکوں پر پرتشدد ردعمل سامنے آسکتا ہے جس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔

ملک ایک ایسے انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے جس کی لہر اس گھٹیا اور بوسیدہ نظام کو مٹا کر رکھ دے گی جس نے اس ملک کی تقدیر کو ایک اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا ہے ۔ اس کے عوام کو غلام بنا رکھا ہے جس کی باگ ڈور مفاد پرست اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کی سلطنت لوٹ مار کی بنیادوں پر استوار ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے حکومتی طاقت درکار ہوتی ہے۔ مایوسی اس لئےہے کہ یہ ناجائز عمارت منہدم ہورہی ہے اور اس عمل کو روکنے کا کوئی طریقہ دکھائی نہیں دیتا۔ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت پر پابندی لگانے اور اس کے سربراہ کو نااہل قرار دینے سے حالات یقینی طور پر قابو سے باہر ہوجائیں گے۔

ہم اس خواب کی تعبیر دیکھنے والے ہیں۔ کوئی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی ۔ پیدا کئےجانے والے تمام تر آئینی بحران کے باوجود یہ ایک عظیم الشان نظارہ ہوگا، اسے دیکھیں، اس سے لطف لیں ، اس کا جشن منائیں، یہی پاکستان کے حقیقی مستقبل کی جھلک لئے ہوئے ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین