• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین کے مطابق پاکستان میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری کا ہونا لازم ہے، وطن عزیز میں پہلی مردم شماری قیام پاکستان کے بعد1951میں اور پھر1961میں ہوئی تھی، اس کے بعد مختلف اوقات میں ہوتی رہی لیکن1998کے بعد18سال گزر جانے کے باوجود نئی مردم شماری نہیں ہوسکی ۔ باور کیا جارہا تھا کہ موجودہ حکومت جو اپنی مدت اقتدار کے تین سال مکمل کرچکی ہے ،مردم شماری کرانے میں کسی حیل و حجت سے کام نہیں لے گی لیکن وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے اگلے ہی روز حتمی اشارہ دیا گیا ہے کہ مردم شماری آئندہ سال تک کے لئے ملتوی کردی جائے گی ،اس سے خاص کر چھوٹے صوبوں کی امیدوں کو شدید دھچکا لگنے کا امکان ہے، جو بڑے تواتر کے ساتھ جلد از جلد مردم شماری کرانے پر زور دے رہے ہیںتاکہ وہ آبادی کے نئے اعداد و شمار کے مطابق نہ صرف وفاق سے اپنا حصہ وصول کرسکیں بلکہ ان کی روشنی میں اپنے تعلیم و صحت اور ترقیات کے منصوبوں کو بھی عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق تشکیل دے سکیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں کے درمیان صرف آبادی میں ہی ہولناک اضافہ نہیں ہوا بلکہ دیہات سے شہروں کی طرف بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی نے بھی نت نئے مسائل پیدا کئےہیں اور عوام کے سیاسی مائنڈ سیٹ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ خود کچھ سیاستدان بھی درپردہ مردم شماری کے خلاف ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی نئی تبدیلی اپنے حلقہ انتخاب میں ان کی یقینی جیت کو شکست سے دو چار کردے لیکن مردم شماری کے التواء اور تاخیر در تاخیر میں سب سے زیادہ نقصان خود عوام کا ہورہا ہے کیونکہ جب آبادی کے درست اعداد و شمار ہی میسر نہیں ہوں گے تو کسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری لانے کے لئے کوئی جامع پالیسی تشکیل دینا ممکن نہیں ہوگا اس لئے اب مردم شماری میں بار بار کی تاخیر کو ہر قیمت پر ختم کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔
تازہ ترین