• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طورخم گیٹ پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے اور پاکستان میں افغان سفیر نے صورت حال کو بہتر بنانے میں اپنا سفارتی کردارا دا کرنے کے بجائے دھمکی دی ہے کہ گیٹ کی تعمیر نہ روکی گئی تو پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے جبکہ پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان ا ٓمد و رفت کو دستاویزی ضابطہ کار کے تابع کرنے کے لئے بارڈر مینجمنٹ نظام سے پیچھے نہ ہٹنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سرحد پر نہ صرف گیٹ بلکہ باڑ بھی لگائیں گے۔ جمعرات کو ا س مسئلے پر مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پارلیمنٹ کو بریفنگ دی جبکہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اپنی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ملنے والی 2250کلو میٹر طویل سرحد پر صرف ایک نہیں، طورخم جیسے چار گیٹ لگائے گا۔ قومی اسمبلی میں مشیر امور خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سرحدی انتظامی نظام پاکستان کا حق ہے۔ یہ کسی معاہدہ یا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحد پر گیٹس کے علاوہ باڑ بھی لگائی جائے گی اور ملکی سلامتی کے مفاد میں دیگر اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ پاکستان نے افغان حکومت کو دو ماہ قبل آگاہ کر دیا تھا کہ یکم جون سے طورخم سرحد پر دستاویزات کے بغیر آمد ورفت بند کردی جائے گی۔ ا س اقدام کا مقصد دونوں ملکوں میں نقل و حمل کو ضابطہ کار کا پابند بنانا، غیر قانونی ا ٓمدو رفت ، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے اور سمگلنگ کو روکنا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد ا ٓصف نے بھی سینٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اس وقت کھلی سرحد کی وجہ سے افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستانی طالبان اور ان کے لیڈرافغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور انہیں افغان اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک افغانستان سرحد پر آمد ورفت کے 78راستے اور چمن اور طورخم سمیت 16کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سے 9بند ہیں۔ افغان حکام کو اعتراض ہے کہ زیرو لائن پر گیٹ نہیں بن سکتے جبکہ بھارت کے ساتھ ہمارے گیٹ زیرو لائن پر ہی ہیں یہ بات لائق توجہ ہے کہ بارڈر مینجمنٹ کا تصور کوئی نیا نہیں دنیا کے تقریباً تمام ملکوں کے درمیان باقاعدہ سرحدی نظام موجود ہے۔ پاک افغان سرحد کھلی ہونے کی وجہ سے پاکستان بے پناہ نقصانات اٹھا چکا ہے۔ دہشت گردی کا عذاب بھی کھلی آمد و رفت کا نتیجہ ہے۔ کھلی سرحد کے باعث سوویت یونین کے حملے اور بعد میں امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کی یلغار کے وقت لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان ا ٓگئے۔ اس وقت بھی تیس لاکھ مہاجرین یہاں موجود ہیںجنہوں نے ہماری معیشت اور معاشرت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر یہ وا پس چلے جائیں تو کوئٹہ شوریٰ کی شکایت رہے نہ حقانی نیٹ ورک کا جھگڑا۔ ا سی لئے وزارت خارجہ کے ترجمان نے عالمی برادری سے ا پیل کی ہے کہ مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ جہاں تک بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ ہے توا س سلسلے میں پچھلے ڈیڑھ سال سے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی بات چیت چل رہی تھی جو کابل حکومت کے رویے کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ طورخم گیٹ کا قضیہ کھڑا ہونے کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر افغان وزیر خا رجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کو اسلام ا ٓباد آنے کی دعوت دی ہے تاکہ مذاکرات کے ذریعے اعتماد کے فقدان ا ور غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں جو مذہب کے علاوہ تاریخ اور ثقافتی رشتوں میں بھی منسلک ہیں۔ انہیں دوستی کے رشتوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے سفارتکاری کے ذریعے مفاہمت کا راستہ نکالنا چاہیے۔ ان کی باہمی کشیدگی سے صرف دہشت گرد فائدہ اٹھائیں گے جس سے دونوں ملکوں کو نقصان پہنچے گا۔ امریکہ اورنیٹو ممالک جن کی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں کوبھی چاہیے کہ وہ کابل حکومت کو ا من و آشتی کا را ستہ دکھائیں ا ور حا لات کو معمول پر لانے میں مدد دیں۔
تازہ ترین