• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مستقبل کے پریشان کن حالات سے بچنے کیلئے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کوبہتر بنانے کی کوشش میںکیاہم مزید پریشان کن حالات کا شکار تو نہیں ہوچکے؟ ہماری طالبان پالیسی کے پیچھے منطق یہ تھی کہ پاکستان اپنی مشرقی سرحدپر دشمن انڈیا کی طرح مغربی سرحدپر دشمن افغانستان نہیں چاہتا،مبادا وہ ہمارے خلاف متحد ہوجائیں۔ کیا آج یہ خدشہ سچ ثابت نہیں ہوچکا؟ آج ہمارا ریاستی بیانیہ یہ ہے کہ ہمارے مشرق اور مغرب میں دو دشمن ریاستیں دنیا کی واحد سپرپاور کی شہہ پر ہمارے خلاف کام کررہی ہیں۔ اس ہفتے طورخم پر پاک فوج اور افغان فورسز کے درمیان ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ہم نے میجر علی جواد کو کھو دیا۔ اس سے پہلے ایسا کب ہوا تھا کہ مغربی سرحد پر اس طرح فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہواور ہمارے کسی فوجی جوان یا افسر نے اپنی جان کی قربانی پیش کی ہو؟ ’’بلا اشتعال اور اندھا دھند فائرنگ‘‘ ہمارے مشرقی بارڈر کا خاصا رہی ہے ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ این ڈی ایس اور را دشمن ایجنسیاں ہیں اور وہ مل کر پاکستان ، خاص طو رپاک چین معاشی راہداری کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ہمیں یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ امریکہ کا یک طرفہ کارروائی کرکے ملاّ منصور کو ہلاک کردیناہماری خودمختاری کی پامالی ہے، نیز اس وقت پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی فضا مکدّر ہوچکی ہے ۔
گزشتہ ہفتے ہمارے مشیر برائے امور ِ خارجہ، سرتاج عزیز نے امریکہ کو ایک ’’خودغرض دوست ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے مفاد کے لئے ہمیں استعمال کرتا اورمطلب نکل جانے پر آنکھیں پھیر لیتا ہے ۔ 1990کی دہائی میں بھی ہمیں یہی شکایت تھی۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس خطے میں امریکی مفادات ختم ہوگئے تو ہمیں اپنی جوہری صلاحیت بڑھانے کی پاداش میں پریسلر، گلین اور سمنگٹن ترامیم کا سامنا کرنا پڑا۔ تو کیا ہمیں ایک مرتبہ پھر نوّ ے کی دہائی کی اُسی الجھن کا سامناہے ؟ شایداس مرتبہ ایسا نہیں ہے ، کیونکہ امریکہ افغانستان سے نہیں جارہا ۔ اس کے کچھ دستے افغانستان اور اس کے گرد ونواح میں طالبان رہنمائوں کے تعاقب میں ہیں۔ امریکہ نے یہاں سے رخت سفر باندھنے کی بجائے انڈیا کے ساتھ شراکت داری استوار کرلی ہے ۔ تو کیا آج امریکہ کا افغانستان میں ٹھہرنا ہمارے لئے اچھی خبر ہے یا بری؟ہمارا کہنا ہے کہ امریکہ سی پیک سے ناخوش ہے، چنانچہ خطے میں ہونے والی نئی گریٹ گیم میں وہ انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔گویا حتمی تجزیہ یہ کہ امریکہ یہاں سے نہیں جارہا لیکن اُس کے مفادات ہمارے مفادات سے ٹکرائو رکھتے ہیں۔
امریکہ جوہری ہتھیار ختم کرنے کے لئے پاکستان پر دبائو ڈالتا رہا ہے ، لیکن وہ ہمیں قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس دوران واشنگٹن کے پالیسی سازاس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے کہ ہمارا جوہری پروگرام بھارت دشمنی کی وجہ سے ہے ،اور جب تک پاک بھارت تعلقات میں مستقل بنیادوں پر بہتری نہیں آتی، ہمیں جوہری پروگرام ترک کرنے پر نہ ترغیبات سے باز رکھا جاسکتا ہے اور نہ دھمکیوں سے ۔ تاہم حالیہ دنوں تنائو کی وجہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت نہیں ۔ ایف سولہ طیاروں کی ڈیل کی منسوخی یا کولیشن سپورٹ فنڈ کی معطلی محض علامات ہیں،تنائو کی اصل وجہ ہماری افغانستان اور طالبان کے لئے مختلف پالیسیاں ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ طالبان پالیسی کا تعلق نظریاتی ہم آہنگی کی بجائے سیاسی حقائق سے ہے ۔ ہماری دلیل یہ تھی کہ نائن الیون کے بعد امریکی کولیشن طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا، چنانچہ افغانستان میں امن صرف اس صورت ہوسکتا ہے جب ہم طالبان کو افغان حکومت کا حصہ بننے پر راضی کریں۔ یہاں ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ امریکہ اور افغان حکومت طالبان کے لئے لچک پیدا کرنے کے لئے تیار تھے لیکن طالبان بات چیت کرنے کی بجائے جنگ کرنے پر مُصر تھے۔
پاکستان سے تین چیزوں کا مطالبہ کیا جاتا رہا ۔ پہلایہ کہ اگر پاکستان طالبان پر کوئی اثر رکھتا ہے تو وہ اُنہیں میز پر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے آمادہ کرے ۔ دوسرا یہ کہ اگر طالبان مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے افغان سپاہیوں اور شہریوں پر حملے جاری رکھیں تو پاکستان اُن کے خلاف کارروائی کرے ۔ تیسرا یہ کہ اگر پاکستان طالبان سے لڑنے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ کم از کم اُنہیں اپنی سرزمین پر پناہ اور محفوظ ٹھکانے فراہم نہ کرے ، اور سرحد پار دھکیل دے جہاں وہ جانیں اور افغان اور امریکی فورسزجانیں۔ اب ہوسکتا ہے کہ پاکستان پہلے مطالبے پر عمل کرانے کی پوزیشن میں نہ ہو ، اوردوسرے اور تیسرے آپشن کو اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو، ملاّ منصور کو ہلاک کرنے والے ڈرون سے اس بات کا واضح پیغام ملتا ہے کہ اب پاکستان کی معلوم پالیسی کے حوالے سے امریکی صبر کاپیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔ کیا ہم گھوم پھر کر دوبارہ اُسی مقام پر آگئے ہیں جہاں ہمیں ایک مرتبہ پھر نوّے کی دہائی کی یا نائن الیون کے بعد مشرف کے سامنے دستیاب آپشنز (کہ آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں) کی الجھن کا سامنا ہے؟
اگرچہ معیشت ہی گریٹ گیم کی روح ِ رواں ہے لیکن اکیسویں صدی میں ہونے والی دہشت گردی اور جنگوں کے پیچھے نظریاتی محرک کارفرما دکھائی دیتا ہے ۔ اس کشمکش میں جدید دنیا ایک طرف ، جبکہ انتہائی عقائد رکھنے والے دوسری طرف ہیں۔ اگرانتہا پسند طاقتوں ، جیسا کہ افغان طالبان، کا ساتھ دیں تو ہم اپنے گھر میں انتہاپسندی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کبھی نہیں جیت پائیں گے ، اور نہ ہی شروع ہونے والی گریٹ گیم میں اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کر پائیں گے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم اس جنگ میں انتہا پسندوں کے ساتھ کھڑے رہے تو دنیا میں ہمارا کوئی دوست نہیں رہے گا، حتیٰ کہ چین بھی نہیں۔ سی پیک کو سب سے بڑا خطرہ بیرونی نہیں بلکہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی کے اُن مسائل سے ہے جن کی وجہ یا تو ہماری مبہم پالیسی اور انتہا پسندی کے خلاف دوٹوک جنگ کرنے سے گریز ہے، یا ہم نادانستگی میں ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جن کی وجہ سے سرحد پر بیٹھے ہوئے دشمن کو ہمارے خلاف اندرونی یا بیرونی مسائل پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
اس پس ِ منظر میں یہ سوال ضروری ہوچکا ہے کہ کیا نیشنل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے ہمارے مختصر مدت کے لئے طے کردہ تزویراتی مقاصداور موجودہ ورلڈ آرڈر کے خلاف جذباتی اور نظریاتی نعرے بازی کرنا ہمیں کمزور کرے گا یا طاقتور بنائے گا؟ ضرب ِعضب کے آغازسے پہلے ہمیںبرس ہا برس تک باور کرایا جاتا رہا کہ تمام قسم کے دہشت گردگروہوں کے خلاف بیک وقت جنگ ممکن نہیں۔ جنرل کیانی کے دور میں ہمیں ڈرایا گیاکہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا اور تمام ملک میں اس کا سخت رد ِعمل سامنے آئے گا۔ چنانچہ جب تک سیاسی قیادت عوام کو تیار نہیں کرلیتی، فوج یہ گند صاف نہیں کرسکتی ۔ لیکن پھر یک لخت تمام منظر تبدیل ہوگیا۔ ہم نے ایک نیا آرمی چیف دیکھا جو بالکل مختلف خیالات رکھتا تھا۔ جس دوران سیاسی رہنما انتہا پسندوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر مصر تھے، جنرل راحیل شریف صاحب نے یہ کہتے ہوئے کہ بس بہت ہوچکا، ضرب ِعضب کا اعلان کردیا ۔ پھر رائے عامہ تشکیل دینے کی کوئی ضرورت نہ پڑی، پاکستانی عوام فوج کے پیچھے کھڑے دکھائی دئیے ۔ آج دوسال بعد فوج نے وہ کچھ کر دکھایا جسے ناقدین ناممکن قرار دے رہے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات کہیں کہیں پیش آتے ہیں لیکن پاکستان میں بڑی حد تک تحفظ اور سکون کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ تاہم آج ہمیں افغان طالبان کے بارے میں بھی وہی کہانی سنائی جارہی ہے کہ اگر ہم نے ان کے خلاف کارروائی کی تو وہ تحریک ِطالبان پاکستان کے ساتھ مل کر ہم پر جنگ مسلط کردیں گے ۔ ہم نے بھی دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی کو فاٹا میں شکست دے کر انتہا پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ؟تو پھر وہ مبینہ طور پر ٹوٹی ہوئی کمرکے ساتھ افغان طالبان کے ساتھ مل کر کس طرح پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیں گے ؟اگر فی الحقیقت یہی خطرہ ہے تو کیا افغان طالبان کے خلاف پوری طاقت سے جنگ کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں ؟ جس طرح ٹی ٹی پی اور لشکر ِ جھنگوی ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ تھے، اسی طرح کا مسئلہ افغان طالبان بھی ہیں۔اُن کے نظریات اکیسویں صدی سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ اگرہم پاکستان کو ان کے نظریات سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کے نظریات افغانستان پر بھی مسلط نہیں ہونے چاہئیں۔ اور آخری بات، ہمیں اپنی طاقت سے بڑھ کر چھلانگیں لگانے کی کوشش ترک کردینی چاہئے۔
تازہ ترین