• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے بھارت، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے ہی مسائل کا شکار رہے ہیں۔ چونکہ ہماری نیشنل سیکورٹی کا تزویراتی فوکس ان تینوں ممالک پر رہتا ہے ، چنانچہ یہ بات پوچھنے کی ہے کہ ہماری سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں سے اسٹرٹیجک پالیسی کی ناکامی کا ذمہ دارکون ہے ۔
یہاں ہمیں کچھ سنگلاخ حقائق کو تسلیم کرناہوگا۔ آزادی کے بعد سے ہی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو ایک ایسی ’’نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ‘‘ کے طورپرڈھالنا شروع کردیا جس میں آئین، قانون، معیشت، جمہوریت اوربیرونی ممالک سے تعلقات نیشنل سیکورٹی کے پس ِ منظر میں وضع کردہ اسٹرٹیجک ڈاکٹرائن کے ماتحت ہوتے چلے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کےتعین کردہ اس ڈاکٹرائن میں بھارت ہمارا ازلی دشمن تھا۔چونکہ ملک کی زمام ِاختیار تین عشروں تک براہ راست فوجی حکمرانوں(جنرل ایوب خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف)کے ہاتھ رہی اور جب ’’نااہل اور بدعنوان‘‘سویلینز اقتدار میں آئے تو بھی قومی سلامتی اور دیگر اہم امور پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت رہی، اس لئے مذکورہ ڈاکٹرائن اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا قومی بیانیہ عوامی سوچ کا حصہ بنتا چلا گیا۔ آزادی کے بعد سے خارجہ پالیسی کی بابت تمام اہم فیصلے طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے ہی کیے ، جبکہ کمزور اورمنقسم سویلینز کو چاروناچار اُس کے فیصلوں کو تسلیم کرنا پڑا ۔ ان فیصلوں میں سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں امریکی کیمپ میں شامل ہونا، مشرقی ِ پاکستان کے حوالے سے ایسی پالیسی اپنانا جس سے علیحدگی کے جراثیم پروان چڑھیں، 1980کی دہائی میں افغان جہاد کی دلدل میں کود پڑنا، چار مواقع پر انڈیا کے ساتھ جنگ میں الجھ بیٹھنا، 1997میں کابل میں اپنی پسند کے جہادیوں(طالبان) کی حمایت کرنا ، اور نائن الیون کے بعد ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کی تلاش میںطالبان کو وزیرستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنا بہت اہم اور دورس نتائج کے حامل تھے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئےماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے غیر ریاستی عناصرکی سرپرستی کی ، کشمیر کو ’’آزاد ‘‘ کرانے کے لئے فرقہ وارانہ انتہا پسند قوتوں کے ہاتھ مضبوط کیے اوربھارت کے ساتھ تجارت کو مستر د کرکے پرامن بقائے باہمی کا راستہ ترک کیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کرتے ہوئے معاشی مفاد حاصل کرنے کے مواقع پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئے ۔
سچی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف کے وقت سے اسٹیبلشمنٹ اپنی قومی سلامتی کی پالیسی اوراپنے سیاسی جغرافیائی تصورات پر نظر ِ ثانی کرتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے ۔ نائن الیون کے بعد اس نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی کی تلاش ترک کردی تھی۔ 2005 ء میں اسے کشمیر میں نام نہاد جہاد کی سرپرستی کے منفی نتائج کا احساس ہوگیا تھا، چنانچہ اس نے بتدریج اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس دوران محسوس کیا گیا کہ پاکستان کے درودیوار سے ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کا نعرہ غائب ہونے لگا ہے ۔ 2013 ء میں جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے وقت سے اسٹیبلشمنٹ نے ’’پاکستان نواز افغانستان ‘‘ کا تصور ترک کرکے غیر جانبدار افغانستان، جو پاکستان دشمن نہ ہو، کے تصور پر اکتفا کرلیا۔
سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ اب نیشنل ڈاکٹرائن کے بیانیے کا رخ ’’قومی سلامتی کو اندرونی دشمن سے لاحق خطرے‘‘ کی طرف موڑ دیاگیا۔ کہا گیا کہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق اصل خطرہ بھارت سے نہیں بلکہ اندرونی دشمن (انتہا پسندوں) سے ہے ۔ جنرل راحیل شریف کا شروع کردہ آپریشن ضرب ِ عضب اسی ڈاکٹرائن کی عملی شکل ہے ۔ یہ تمام پیش رفت پاک فوج کے تبدیل ہوتے ہوئے تصورات کا مظہر ہے ۔ بدقسمتی سے اس خطے کے اہم کھلاڑیوں، جیسا کہ پاکستان، انڈیا ، افغانستان اور امریکہ کی گردن پر عدم اعتماد اوردہرا کھیل کھیلنے کا تاریخی بوجھ موجود ہے ۔ اعتماد کا یہ فقدان پاکستان اور خطے کو استحکام بخشنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے ۔ افغانستان کے اہم کھلاڑی افغانستان میں قیام ِامن کے لئے کثیر جہتی تعاون کے لئے تیار ہیں لیکن ہر کوئی اس کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کرنا چاہتا ہے ۔ ’’ڈو مور ‘‘اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کا ہی دوسرا نام ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور خطے کے دیگر کھلاڑیوں کے درمیان تنائو کی اصل وجہ یہی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ آج داخلی طور پر پاکستان کے سویلینز اور وردی پوش اس مسئلے پر ایک پیج پرہیں،لیکن یہاں بھی تاریخی طور پراعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔
اس پس ِ منظر میں ہمارے سامنے یہ سوال ابھرتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ن وضع کرتا ہے اور ا س کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟فوج کا کہنا ہے کہ وہ توصرف ’’ان پٹ ‘‘ دیتی ہے لیکن اسے حتمی شکل دینے کی ذمہ داری سویلین حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ دوسری طرف سویلینز کا کہنا ہے کہ ، اور ان کے پاس اس کا ٹھوس جواز موجود ہے، فوج ہی خارجہ پالیسی وضع کرتی ہے ، اور اس کا نفاذ بھی مکمل طور پر اسی کے اختیار میں ہے۔ اگر سویلین حقانی نیٹ ورک کو پاکستان سے باہر نکال پھینکنا ،یا افغان طالبان کو مذکرات کی میز پر لانا ، یاتمام قسم کے جہادی دستوں کو غیر مسلح کرنا اور اُنہیں لگام ڈالنا چاہتے ہیں تو کیا وہ ایسا کرنے کے قابل ہیں؟
اگر سویلینز انڈیاکے ساتھ تجارت کرتے ہوئے امن اور معاشی مفاد کے امکانات کو آگے بڑھانا چاہتے تھے تو کیا اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی؟چنانچہ سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس ایک کل وقتی وزیر ِ خارجہ کیوں نہیںیا اتنے سارے مشیر برائے خارجہ امور کیوں ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ منتخب شدہ قیادت کی صلاحیت، تصور، اہلیت اور ارادہ کیا ہے، نیز ملک کو پریشان کن صورت ِحال سے نکالنے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کاکیا کردار ہے۔ اس وقت جب کہ ملک بیرونی محاذ پر مشکلات کے گرداب میں ہے، تو تمام قوم انہی کی طرف دیکھے گی جن کے پاس فیصلہ سازی کی قوت رہی ہے۔
تازہ ترین