• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھر رہئے تو ویرانیٔ دل کھانے کو آوے
جانے کیوں فیض کا یہ شعر دل کو پسیجے جا رہا ہے؟ شاید اس لئے کہ یوں لگ رہا ہے کہ گھر ٹھیک ہے نہ محلے داروں سے نباہ کی کوئی صورت دکھائی پڑتی ہے۔ ہر طرف اک بے ہنگم شور ہے اور رسوائیوں اور مہم جوئیوں کو گلے لگائے رکھنے پہ اصرار۔ پانامہ لیکس، پانامہ لیکس کا شور کچھ ایسا مچا ہے کہ کسی کو بے ہنگم اطوار سدھارنے کی فرصت نہیں۔ پاکستان کی افغانستان کے ناطے چالیس سالہ کارگزاریوں کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین سرحد کا دیرینہ تنازع پھر سے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ افغانوں کی برصغیر پر خونیں یلغاروں سے روس اور برطانیہ میں گریڈ گیم اور افغانوں کا بفرا سٹیٹ ہونے پہ اکتفا، بادشاہت کے خاتمے اور انقلاب کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کے عروج اور بعد ازاں افغان مجاہدین اور پھر طالبان کے ہاتھوں نہ صرف افغانستان کی دردناک تباہی اور پاکستان کی دہشت گردی کی حربی نعمت کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی خون آشام داستان تک ہم نے صرف گنوایا ہی گنوایا ہے اور تباہی کے سوا پایا کچھ بھی تو نہیں۔ ہمارا ملک بھی کیسا ہے جس کی زیادہ تر سرحدیں ابھی بھی متازع ہیں۔ بقائے باہم کے لئے اس مُدے سے بڑا مُدا کیا ہوگا۔ رہی ڈیورنڈ لائن تو اسے ماننے کے سوا کیا چارہ ہے۔ اگر نہیں تو پھر اِدھر اُدھر کے طالبان کو دہشت گردی کیلئے سرحد کے دونوں جانب پھیلانے سے کون روک سکتا ہے۔ اسے روکنا ہی دونوں ملکوں کے مقدر کے لئے ضروری شرط ہے۔ ورنہ عدم استحکام دونوں ہمسایوں کو لے ڈوبے گا۔ اور اس آگ میں کوئی تیسرا کودے گا تو اس کی تپش سے وہ کیسے محفوظ رہے گا۔ آگ بجھانے ہی میں سب کی عافیت ہے اور آگ پر تیل ڈالنے والوں کو روکنے کی ضرورت۔ افغانستان کی دلدل میں پھنس کر ملنا بھی کیا تھا۔ کہاوت بر موقع ہے: کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا!
لوگ سیخ پا ہوئے جا رہے ہیں یہ سن کر کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہماری قربانیوں کے باوجود عالمی انعام و اکرام کی بارش کا رُخ ہماری مخالف سمت میں کیوں۔ اور ہمارے پاس ملا منصور کی ڈرون کے ہاتھوں موت پہ اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی پر ماتم کرنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (Nuclear Suppliers Group) جو بھارت کے 1974ء کے ایٹمی دھماکوں کے ردّعمل میں بنا تھا، اب اُس میں ہمیں باہر رکھ کر (جو ہماری ہی طرح جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے (Non-Proliferation Treet) کا دستخط کنندہ نہیں) کی دستار بندی کی تیاریاں ہیں۔ لیکن ہمیں شاید یاد نہیں کہ 2008ء میں NSG ہی نے بھارت کو وہ تمام استثنائیں اور مراعات دی تھیں جو NSG کے غیررسمی اراکین کو حاصل ہیں۔ اور تب ہمارے کمانڈو جرنیل پرویز مشرف ابھی صدر تھے۔ 2008ء ہی میں امریکہ اور بھارت میں سول جوہری تعاون کا معاہدہ ہوا تھا۔ جو اب حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ کیس ہمارا ویسا ہی ہے جیسے بھارت کا اور موقف بھی صحیح ہے کہ یکساں سلوک ہو اور قائدے کے مطابق۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ آگے اسلحہ کی نہ ختم ہونے والی دوڑ ہے جو غیرت کا نہیں جیب میں کتنا مال ہے کا معاملہ ہے۔ اور خزانے کی جیب میں دو سوراخ ایسے ہیں کہ وفاق کے پاس قرضوں کی ادائیگی اور متنوع سلامتی کے اخراجات کے بعد سوائے اُدھار لینے کے کوئی راستہ نہیں بچتا۔
ایسے میں خارجہ و سلامتی پالیسی پر بحث کا سلسلہ چل نکلا ہے حالانکہ سویلین حضرات کے پاس اِس ضمن میں اختیار ہے نہ استطاعت۔ اور جن کے پاس ہے وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ امریکہ و بھارت اور افغانستان سمیت سب سے جھگڑا ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مائوزے تنگ نے کہا تھا کہ بہتوں کو ساتھ ملائو اور مخالف کو تنہا کرو۔ لیکن ہماری حربی سائنس ہی اُلٹی ہے جو زیادہ سے زیادہ کو مخالف بنائو اور دشمن کے کیمپ میں شامل کرو کے نصب العین پر مصر ہے۔ ایسے میں خارجہ و سلامتی کی بحث قومی غیض و غضب کو ہوا دینے کی جانب راغب ہے جو عقل اور سوجھ بوجھ سے نہ صرف عاری ہے بلکہ اپنے ہی ہاتھ کٹوانے کی متمنی۔ اس پر مضحکہ خیز طرہ یہ ہے کہ کل وقتی وزیر خارجہ کے نہ ہونے کی دُہائی دے کر حکومت کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع کے قلمدان وزیراعظم کے پاس ہیں اور اُنھوں نے وزارتِ خارجہ کا وقتی چارج سرتاج عزیز اور وزارتِ دفاع کا فقط قلمدان پانی و بجلی کے وزیر کی گاہے بگاہے درفنطنیوںکے حوالے کر رکھا ہے۔ اس پر مسکرانے اور پھبتی کسنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ پچھلی بار وزیراعظم نواز شریف کو افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی خبر اپنے وزیر خارجہ گوہر ایوب کی قومی اسمبلی میں تقریر کے حوالے سے ٹیلی وژن دیکھتے ہوئے ملی تھی۔ جب موصوف سے پوچھا گیا تو بقول ایک وفاقی وزیر کے گوہر ایوب نے بتایا کہ اُنہیں ایسا کرنے کیلئےایک کرنل صاحب نے کہا تھا۔ اسی طرح صدر آصف علی داری کو اپنے ہی وزیر خارجہ (حنا ربانی کھر نہیں)کے ہاتھوں خفت اُٹھانا پڑی۔جب حال یہ ہو کہ وزیرِ خارجہ ہی آپ کا نہ رہے تو وزیراعظم کے پاس ان محکموں کو اپنے پاس رکھنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ تو تبھی ہو جب آپ کو اُن امور کی فہم ہو اور آپ کا دل بھی مضبوط۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد اب سیاستدانوں کو ویسے بھی ان امور میں دلچسپی نہیں رہی۔ لیپ ٹاپ اور پیلی ٹیکسیوں کی تقسیم ہی اب سیاسی دھندوں کو چلانے کا چالو سکہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کی استعداد کیسے بڑھانی ہے، قرضوں کی واپسی کا اپنی کمر تُڑائے بنا کیا حل ہو۔ حقیقی معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا، پانی اور بجلی بحران اور بگڑتے ماحول میں فصلوں کی افزائش اور پیداواریت کیسے بڑھے۔ نوجوانوں کے جمِ غفیر کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے کیسے کارآمد بنایا جائے، حکومتی استعداد کیسے موثر اور اچھی کی جائے۔ ٹیکسوں کی وصولی کس سے اور کتنی ہو اور وہ کس پر اور کہاں کتنی خرچ ہو۔ ہمسایوں کے ساتھ باہمی مفاد میں تعلقات کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ بیرونی دُنیا کو اپنی طرف اچھے پیرائے میں کیسے راغب کیا جائے۔ انسانی آبادی اور اُس کی طبعی و ذہنی سلامتی اور نشوونما کے لئے کیا کچھ اور کیسے کیا جائے۔ غریبی کے تاریک گڑھوں سے اپنی آبادی کے بڑے حصے کو کیسے نکال کر ترقی کی شاہراہ پہ کھڑا کیا جائے۔ تعلیم اچھی اور عام کیسے کی جائے اور باعزت روزگار کا بندوبست کرنے کے لئے کیا جتن کیے جائیں۔ پارٹیوں کو جمہوری اور معاشرے میں جمہوری روایات اور برداشت کو کیسے بڑھایا جائے۔ قومی بیانیہ کیا ہو اور انتہاپسند نظریات سے کیسے خلاصی ہو۔ یہ سب سوالات اک عرصہ سے ہمارے باہم دست و گریباں سیاست دانوں کی توجہ کے طلب گار ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کا پٹرہ کرنے کے سوا اُنھیں سوجھتا کچھ نہیں۔ بس لے دے کے دھرنے کرنے ہیں، بھلے جمہوریت کا ہی دھڑن تختہ ہو جائے۔ اور حکمران جماعت ہے کہ اِس پر مصر کہ ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ایسی سیاسی عدم پختگی پر جو دھماچوکڑی چل رہی ہے وہ قابلِ رحم نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھاڑ میں جائو، ہمیں تمہاری ان لڑائیوں سے کیا غرض۔ اور جب لوگ یہ کہیں تو جمہوریت کا اللہ حافظ اور ملک کو خدا حافظ۔ پھر فیض کیوں نہ یاد آئے جب ویرانی ہی ویرانی ہو اور
راہ چلئے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
تازہ ترین