• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی جانب سے پاناما لیکس کے مسئلے پرکرائی جانے والی یہ یقین دہانی بلاشبہ ہر باشعور پاکستانی کی نگاہ میں مستحسن اور باعث اطمینان ٹھہرے گی کہ ان کی جماعت حکومت کی مخالفت میں اس حد تک آگے نہیں جائے گی جس سے جمہوری نظام اور ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے غیرمبہم لفظوں میں پچھلے برسوں میں منتخب حکومتوں کے خاتمے کیلئے روا رکھی گئی دھرنا سیاست کو اسکرپٹڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سے جمہوریت اور ملک کو نقصان پہنچا۔انہوں نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر ایک کا احتساب ہونا چاہئے اور پاناما لیکس کے حوالے سے پہلے وزیر اعظم کا احتساب ہو اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھایا جائے۔ سید خورشید شاہ نے یہ کہنے کے باوجود کہ ٹرمز آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہ ہونے کی صورت میں فیصلہ سڑکوں پر ہوگا واضح کیا کہ ان کی جماعت حکومت مخالف مہم میں اتنا آگے نہیں جائے گی جس سے تیسری قوت کو مداخلت کا موقع ملے۔انہوں نے اپنے موقف کی سچائی کو درست ثابت کرنے کیلئے اپنی پارٹی کے سابقہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے دھرنوں سے جمہوریت کو خطرہ تھا لہٰذا پیپلز پارٹی سمیت پوری پارلیمنٹ نے جمہوریت کے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا۔انہوں نے موجودہ صورت حال میں حکومت کی جانب سے ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں اس کی مخالفت نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔پی این اے اور آئی جے آئی کی تحریکوں کے پس پردہ اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مارشل لاء سے بہتر ہے کہ ہم سب اسٹیک ہولڈرز بیٹھ جائیں اور احتساب کے کسی طریق کار پر اتفاق کرلیں۔حقیقت یہ ہے کہ سید خورشید شاہ نے حکومت اور ملک کی پوری سیاسی قیادت کو ہوشمندی کی راہ دکھائی ہے۔پاناما لیکس کی تحقیقات کے طریق کار پر فوری اتفاق نہ ہوا اور یہ معاملہ مزید معلق رہا تو ملک میں بے یقینی کی کیفیت لامحالہ بڑھے گی ۔خارجہ پالیسی کے محاذپر ان دنوں ہمیں جس مشکل صورت حال کا سامنا ہے وہ سب پر عیاں ہے، ملک کے اندر بھی سڑکوں پر حکومت مخالف مہم شروع ہوگئی اور حالات قابو سے باہر ہوگئے تو غیرسیاسی طاقتوں کی جانب سے مداخلت کا جواز خود ہی پیدا ہوجائے گا۔ ماضی میں بارہا ایسا ہوچکا ہے تاہم اب حالات جس نہج پر آگئے ہیں ان میں قوی اندیشہ ہے کہ آئینی نظام کی بساط کا لپیٹا جانا ملک کی سلامتی اور سا لمیت کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا۔ لہٰذا حکومت کو بھی سید خورشید شاہ کی خیرخواہانہ تنبیہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور اپوزیشن کے ان رہنماؤں کو بھی جو ماضی کی طرح حکومت مخالف مہم میں کسی بھی حد تک چلے جانے پر تلے ہوئے ہیں، آئینی نظام کی بقا کو بہرصورت مقدم رکھنا چاہئے ۔ پاناما لیکس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر بظاہر اختلاف کا واحد سبب اپوزیشن کا یہ مطالبہ ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے پہلے وزیر اعظم محاسبہ ہونا چاہیے۔ منظر عام پر آنے والی اطلاعات سے مترشح ہوتا ہے کہ حکومتی ٹیم اب تک اسے ماننے کیلئے تیار نہیں جبکہ بظاہر اس مطالبے میں کوئی غیر معقول بات نظر نہیں آتی اور حکومتی ارکان کی جانب سے بھی اس کے غلط ہونے کی کوئی منطقی دلیل سامنے نہیں آئی ہے۔ وزیر اعظم خود قوم سے اپنے خطاب میں پیش کش کرچکے ہیں کہ احتساب کا آغاز ان کی ذات سے کیا جائے۔ لہٰذا حکومتی ارکان کو یا تو اپنے موقف کے حق میں کوئی قابل قبول دلیل دینی چاہئے یا پھر اس مطالبے کو تسلیم کرکے تحقیقات کے آغاز کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ایسا نہ کیا گیا تو غیرجمہوری طاقتوں کیلئے مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی ذمہ داری دھرنا سیاست کے علم برداروں ہی پر نہیں، حکومت پر بھی عائد ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ احتساب کا ایسا مستقل اور مؤثر نظام تشکیل دیا جائے جس سے بچ نکلنا کسی کیلئے ممکن نہ ہو تاکہ مقتدر طبقات کے ہاتھوں قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو۔
تازہ ترین