• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
12 مارچ1949 کومملکت کی’’ خالق اسمبلی‘‘ میں وزیراعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان نے قرارداد پیش کی ،’’قرارداد مقاصد ‘‘کہلائی اور متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ قرارداد نے آئین سازی کے لیے حسب ِ ذیل رہنماء اصول وضع کیے اورمقننہ کو پابند بنایاکہ ’’حاکمیت ِ اعلیٰ اللہ کی،قانون سازی قرآن وسنت کے مطابق ہوگی۔ مملکت کے شہری کو اللہ کی جانب سے تفویض کیے گئے اختیارات کا استعمال مقدس فریضے کے طور پرکریں گے اور اللہ کے بتائے احکامات کے مطابق اسلام کے حدودوقیود کے اندررہیں گے۔مملکت کاہر مسلمان شہری قرآن وسنت کے مطابق ذاتی زندگی گزارنے کا پابندہو گاجبکہ غیرمسلم اپنے اپنے عقائد کے مطابق آزاد ‘‘۔
قراردادِمقاصدجو آئین پاکستان کا لازم جزو، کیا آج قراردادِ مقاصد ابدی نیند سو چکی۔آئین کی ایسی تضحیک کیوں؟نئی نئی خرافات ، بدعتیں ، وسوسے ، خوف ، ڈر ،رنج ،جدیدیت، مرعوبیت، دین سے دوری وصف بن چکا۔ تاویلات کے ذریعے قرآنی احکامات سے بچنے کے نت نئے طریقے ایجاد۔وطن عزیز ایک ہمہ گیر اعتقادی، ذہنی ، روحانی اور تہذیبی ارتداد کے بحران میں۔ ایسی تکفیر ماضی کے سیاسی وروحانی زوال جو تاتاریوں کی یلغار ، عہد اکبری کے آئین نو، انگریز کے تسلط اور اتا ترک کی ریفامز سے پیش آئے ،سے کہیں زیادہ سنگین۔ اسلامی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں روزمرہ کا معمول ۔ سود، جوا، شراب ،منشیات، ناچ گانا، فحاشی ، عریانی ،بدتہذیبی، چوری چکاری ، اٹھائی گیری ، کرپشن ، استحصال ،ناانصافی ناسور بن چکیں۔اصل واردات نوخیز نو نہالوںاور ابھرتے نوجوانوںکے ساتھ کہ درس گاہوں کے اندر نامناسب ماحول اور نصاب ِ تعلیم زہر قاتل، برادرم انصار عباسی کی پچھلی چند تحریروں نے خلجان میں اضافہ ہی کیا۔ ریاست تو دین کے نام پروجود میں آئی تھی۔ عظیم قائدؒ کی زبان میں روانی کہ مملکت ِخداداداسلامی تعلیمات اور قرآنی گورننس کا ماڈل ہو گا۔’’قراردادِ مقاصد ‘‘قائد کے الفاظ کی عین پاسداری کہ رب ذوالجلال کا تقاضا ’’دین میں پورے کے پورے داخل ہو جائو‘‘۔
جناب وزیراعظم: ذہن کے کسی گوشے میں امت کا شیرازہ بکھرنے ،وطن عزیز کے روبہ زوال ہونے اور قوم کے تتربتر ہونے کی فکر موجودبھی یانہیں؟اندازہ کہ آپ کی عمر 65 سال سے کچھ اوپر، ماضی کی کوتاہیوں اور لغزشوں کے باوجود تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہونا ایک معجزہ ،خدارا اس عمر اور تیسری ٹرم کو بونس اور تحفہ خداوندی سمجھیں۔ اللہ کی ذات یقیناً آپ سے مایوس نہیں کہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ایک نادر موقع مل چکا کیا یہ ممکن ہے کہ اس دفعہ شفاف گورننس پر مبنی ایسا نظام دیںجو کتاب وسنت اور آئین پاکستان کے تقاضوں کو پورا کرجائے ؟۔
جنرل مشرف کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے نے جہاں آپ کو اقتدار سے محروم کر کے جلاوطنی میں دھکیلا وہاں اس لحاظ سے نعمتِ غیر مترقبہ کہ حرمین شریفین میں کئی سال یکسوئی سے عبادات کا موقع ملا، توبہ استغفار پر تطہیر نفس ہونا لازم ،جبکہ عاقبت سنوارنے کے لیے اللہ سے وعدے وعید توبۃ النصوح کا حصہ۔ پچھلے دور میں پندرویںآئینی ترمیم پر گمان اغلب کہ آپ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اسلام کا سہارا لینا چاہتے تھے پندرویں آئینی ترمیم کو آڑے ہاتھوں اس لیے بھی لیا گیا کہ اس میں خود غرضی کی ملاوٹ کا شائبہ ،وگرنہ کیا مجال کہ شریعت کے نفاذ کا اعلان ہو اور مخالفت کرنے والوں کی زبانیں گدی سے جڑی نظر آئیں کہ مملکت خداداد کی بقا ہی نفاذِشریعت میںپوشیدہ۔آج اسلام، نظریہ پاکستان تضحیک کے گھیرے میں، اسلام سے ذہنی طور پر کوئی لگائو نہ رکھنے والی اشرافیہ آلاتِ حکومت پر قابض ، عوام الناس قبضہ استبداد میں ،تعلیمی نظام ،میڈیا، معاشی نظام ،اخلاقی ومعاشرتی اقدارسے نبردآزما۔
یور ایکسیلینسی کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ کے مددگار بن جائیں؟آپ کا نیا دور اتمامِ حجت یاکفارہ،فیصلہ آپ کے ہاتھ میں؟ قوم ومملکت کی بقاء وسا لمیت کا انحصار کہ اصلاح اور نفاذ کا کام آپکی ذاتِ مبارکہ سے شروع ہو ۔ عامۃ المسلمین ، اراکینِ پارلیمنٹ ، وزراء اور دوسرے اداروں کے سربراہان کو باور کرانا ہو گا کہ احکامات الہی کی بارآوری، اتباع سنت ہی نصب العین اور محور بنے گا تو عظیم الشان قوم ومملکت ترتیب پاسکے گی۔ پیرومرشد رہنمائی فرما گئے کہ’’ تھوڑی سی آبیاری اس کشتِ ویراں کو لہلہاتے کھیتوں میں بدل سکتی ہے‘‘۔ ڈاکٹر عبدالقدیر ، پی آئی اے، ریلوے،سٹیل مل ،صنعتی انقلاب ،سائنس اور ٹیکنالوجی ،عسکری ادارے ، ترقیاتی منصوبے ،کھیلوں میں کمالِ فن کل ہی کی بات ۔یہ قوم کیاکچھ نہیں کر سکتی پھر ہمیں استعمار کا ترنوالہ بنا کر ان کے رنگ میں کیوں رنگ دیا گیا؟ سرکاری اشرافیہ کی اصلاح آسان ترین کہ جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ایسے لوگوں کاجیکٹ پہننا،نماز پڑھنا معیارِ زندگی رہا جبکہ جنرل مشرف کے دورمیں انہی لوگوں نے جام تھام لیے کہ رفعتیں پانے کا تقاضایہی تھا۔ ایسی وفادار،بے چون وچرا عمل کرنے والی اشرافیہ دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈے نہیں ملے گی۔ جناب وزیراعظم صاحب اگر آپ نے تہیہ کر لیا تو مصاحبین سب سے پہلے باوضو، ترویج واشاعتِ اسلام اور تقویت ِ ملت میں پیش پیش۔ ایسی تقویت میں ان کی زبانیں، ہاتھ ، پیر بے تاب اور اصلاح نظام کے لیے بے چین۔یورایکسیلینسی ! فارسی کا مقولہ کہ ’’اصلاح بادشاہ اصلاحِ مملکت اور فساد ِ باشاہ فسادِ مملکت‘‘۔حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی تجدید احیائے دین میں پیغمبرانہ شان و بصیرت سے نوازے گئے۔ اکبری عہد میں مجدد کا ظہور تحفہ خداوندی ہی توتھا۔عہد جہانگیری میں شہنشاہ، مصاحبین اور وزراء کو اپنے مکاتب کے ذریعے رشد وہدایت عام کرتے رہے۔عزتِ مآب وزیراعظم صاحب! مکتوبات سے چند اقتباسات آپ کی نذرکہ مکتوباتِ مجددآپکے مقام اور رتبہ کے عین مطابق ،’’حدیث نبوی
ہے کہ’’ اسلام اجنبی تھا جب اس کا آغاز ہوا، ایک زمانہ آئے گا پھر اجنبی ہو جائے گا‘‘، لہذاآج وہ لوگ مبارک کے مستحق جو اسلام کو سنبھالنے کی وجہ سے سب کی نگاہوں میں غیر مانوس اور اجنبی ٹھہرتے ہیں۔ آج اسلام کی بے بسی اور غربت اس حد تک پہنچ چکی کہ دین بیزار کھلم کھلا اسلام پر طعن و تشنیع اور مسلمانوں کی مذمت کرتے ہیں۔ کوچہ و بازار میں اہل کفر کی تعریف و توصیف کرتے پھرتے ہیں۔مسلمانوں کو احکام اسلام کے اجراء میں مشکلات و ناممکنات جبکہ شرعی احکام کی بجا آوری میںمسلمان مطعون ومذموم۔ ہم عصروں میں مذہب کی تعظیم و تکریم حکمران کی ذات سے وابستہ ہے، آپکی کوشش ان منکرات اور قباحتوں سے اہل ایمان کومحفوظ کردے گی، سابق ’’دور‘‘ میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دینِ مصطفوی سے ضد اور عناد ایک شعار ہے (مکتوب65)۔ ’’ اس زمانے میں کچھ طالب ِ علموں نے حرص وطمع کی نحوست سے حکمرانوں کا تقرب حاصل کر لیا۔ خوشامد کر کے دین متین میں شکوک وشہبات پیدا کرکے سادہ لوحوں کو راہ سے ورغلایا۔ ایسا حکمران جو اسلام کی باتوں کو دل سے سنتا اور قبول کرتا ہو۔ باآسانی خرافات سے نجات دلا سکتا ہے‘‘ (مکتوب133 ) ’’اسلام کی غربت اور بے بسی اس حد تک پہنچ گئی کہ دین بیزار اب اس پر قناعت نہیں کرتے کہ بلادِاسلام میں کھلم کھلا کفر جاری کریں بلکہ خواہش یہ ہے کہ احکام ِ اسلام مکمل طور پر زائل ہو جائیںاور اسلام واسلامیت کا نام ونشان مٹ جائے ‘‘(مکتوب81) [مکتوبات ربانی، ترجمہ سیدقاسم محمود]
جناب وزیراعظم کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایسے اسلامک سکالر زجن کا نصب العین آخرت رہے کے جلومیں ہوں یا ہمہ وقت ان کودستیاب ہوں تاکہ شرعی مسائل کی تفصیل و توصیح اور کتاب وسنت و اجماع کے موجب عقائدقرآنی کا نفاذ ممکن ہو ۔ حکومت کی سب سے مقدم ذمہ داری کہ مزید کوئی بدعتی یا گمراہ بیچ میں کو د کر آپ کو راستے سے بہکانہ دے ۔ ایسے علماء سو اور فرقہ پرست مولوی جن کا مطمع نظر دنیا داری ہے، کی قربت یا آبیاری زہر قاتل اور ان کا فساد متعدی۔ جب آپ علمائے حق کی صحبت میں ہوں گے تو ایسوں کی بیخ کنی خود کار اور آسان عمل ٹھہرے گی۔ پچھلے ادوار میں علماء سو اور شیطان صفت مولوی یا دین بیزارلوگوں کے کرتوتوں کی نحوست کی وجہ سے مقتدر طبقے کی بری عادات میں اضافہ ہوا۔ اگر آپ نے مشیر اور مصاحبین تبدیل کر لیے اور ارادہ مصمم ہواتویہی کشت ِ ویراں باغ وبہار کا منظر پیش کرنے میں پیش پیش۔
تازہ ترین