• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طارق بن زیاد اور ابن بطوطہ کا ملک مراکش، پاکستان کے بعد میرے لئے دوسرے گھر کا درجہ رکھتا ہے جہاں میرا کاروبار بھی ہے۔ والدہ کی وفات، چہلم اور پاکستان میں اپنی مصروفیات کے باعث اس بار کئی ماہ بعد گزشتہ دنوں مراکش جانے کا اتفاق ہوا۔ پاکستان میں مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میری یہ ترجیحات میں شامل ہے کہ پاکستان اور مراکش کی باہمی تجارت میں اضافہ اور دونوں ممالک کے درمیان سیاحت کو فروغ دوں۔ میرا ذاتی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو قدرتی حسن سے نوازا ہے۔ میں سیاحت کیلئے ہمیشہ اُس ملک کو ترجیح دیتا ہوں جس کی کوئی تاریخی حیثیت ہو، اسی لئے مجھے نئی اور بلند عمارتوں والے کنکریٹ سے بنے شہروں نے کبھی اپنی جانب راغب نہیں کیا لیکن اس کے برعکس اکثر پاکستانی سیاحت کیلئے اسلامی ممالک کے بجائے یورپی ممالک کو ترجیح دیتے ہیں جہاں اُن سے ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔
مراکش کے دارالحکومت رباط میں میرا اپارٹمنٹ شہر کی سب سے بلند عمارت میں واقع ہے۔ صبح سویرے نیند سے بیدار ہوکر جب میں مراکش کی روایتی چائے ہاتھ میں لئے کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتا ہوں تو سمندر کے کنارے واقع سیکڑوں سال قدیم شہر مدینہ بڑا دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ اس شہر کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ پتھروں سے بنی صدیوں پرانی سڑکیں، مکانات اور شہر کی حفاظت کے لئے چاروں طرف تعمیر کی گئی بلند و بالا دیوار نما فصیل آج بھی اسی طرح جوں کی توں موجود ہیں جس طرح سینکڑوں سال پہلے تھیں۔کچھ صدی قبل مدینے کے دروازوں کو مغرب کے بعد بند کردیا جاتا تھا کیونکہ سمندری راستے سے آنے والے بحری قزاق شہر میں لوٹ مار کرکے عورتوں کو اٹھالے جایا کرتے تھے۔ دارالحکومت رباط کو جب وسعت دی گئی تو اس پرانے شہر کے ساتھ نئے شہر کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس طرح آج رباط پرانے اور نئے شہر میں تقسیم ہوگیا ہے۔ ایک طرف جدید اور بلند عمارتیں ہیں جبکہ دوسری طرف سیکڑوں سال پرانا شہر واقع ہے۔ سیکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی مدینہ شہر کی شناخت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، آج بھی یہاں پرانے بازار، کیفے اور پرانے مکانات قائم ہیں جن میں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ کچھ پرانے مکانوں کو ہوٹلوں میں تبدیل کردیا گیا ہے جنہیں (Riyad)کہا جاتا ہے،جہاں بیرون ملک سے آنے والے سیاح جدید ہوٹلوں کے بجائے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مراکش میں اپنے قیام کے دوران اکثر اوقات میں شام کے وقت اپنی مصروفیات سے فارغ ہو کر مدینے کا رخ کرتا ہوں جس کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں طارق بن زیاد کی سیکڑوں سال پرانی تاریخ میں چلا گیا ہوں۔
مراکش آنے کے بعد میرا یہ معمول رہا ہے کہ میں سب سے پہلے دارالحکومت رباط میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو اپنے آنے کی اطلاع کرتا ہوں۔ اس بار جب میں نے پاکستانی سفیر محمد وحید الحسن کو مراکش آنے کی اطلاع کی تو انہوں نے مجھے چائے پر مدعو کیا۔ محمد وحید الحسن نے کچھ ماہ قبل ہی مراکش میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، ان سے قبل اس عہدے پر ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ سفیر محترم نے مجھے بتایا کہ مراکش میں متعین ہونے کے بعد پاکستان اور مراکش کی باہمی تجارت میں اضافہ اور سیاحت کو فروغ دینا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں مراکش کے بڑے بزنس مینوں کا ایک وفد پاکستان میں ایکسپو 2013ء میں شرکت کرچکا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان اور مراکش کے درمیان سیاحت کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں اور کئی مراکشی باشندے سیاحت کی غرض سے پاکستان کا رخ کررہے ہیں جن سے پاکستانی سفارتخانہ ہر ممکن تعاون کر رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی اور مراکشی باشندوں کے ایک دوسرے کے ملک کی سیاحت کرنے سے نہ صرف پاکستانی اور مراکشی باشندوں کے مابین دوستانہ تعلقات قائم ہوں گے بلکہ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس موقع پر میں نے پاکستانی سفیر کو اس سلسلے میں اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔
ملاقات کے بعد جیسے ہی میری گاڑی پاکستانی سفارتخانے سے باہر نکلی پاکستان میں متعین مراکش کے سفیر محترم مصطفی صلادین نے انتہائی پریشانی کی حالت میں مجھے فون پر کراچی میں 2 مراکشی باشندوں کی شہادت کی اطلاع دی۔ واضح ہو کہ کچھ روز قبل تبلیغ کی غرض سے 6 مراکشی باشندے اپنی بیگمات کے ہمراہ کراچی تشریف لائے تھے اور واقعہ کے روز وہ نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلے ہی تھے کہ موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 مراکشی باشندے شہید ہوگئے۔ مراکش میں موجودگی کے باعث میرے لئے فوری طور پر کراچی پہنچنا ممکن نہ تھا، اس لئے میں نے اپنے بڑے بھائی اختیار بیگ کو فون پر اس اندوہناک خبر سے آگاہ کیا جنہوں نے اُن مراکشی باشندوں کے لواحقین سے ملاقات کرکے واقعہ کی رپورٹ درج کرائی۔جاں بحق ہونے والے مراکشی باشندوں کے لواحقین کا کہنا تھا کہ اُن کے پیاروں کے پاکستان آنے اور ان کی موت یہاں ہونے میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہے، اس لئے اُن کی خواہش ہے کہ ان کے پیاروں کی تدفین بھی یہیں ہو جس کے بعد میرے بھائی اختیار بیگ نے مرنے والوں کی تدفین کے انتظامات کئے اور انہیں سائٹ میں واقع جامعہ بنوریہ عالمیہ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جیسے ہی مراکش کے لوگوں کو کراچی میں اپنے شہریوں کے قتل سے آگاہی ہوئی تو مجھے ہر شخص سوگوار نظر آیا اور یہ واقعہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بنا۔ مراکش میں قیام کے دوسرے روز مراکش کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے ایشیا محمد ملیکی سے میری ملاقات طے تھی۔ دوران ملاقات میں نے اُنہیں کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مراکشی باشندوں کا قتل ٹارگٹ کلنگ نہیں بلکہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات روز کا معمول ہیں اور بدقسمتی سے اس روز مراکشی باشندے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ملاقات کے بعد مراکش کی وزارت خارجہ کے چیف آف پروٹوکول جناب ردا الفاسی جو پاکستان میں مراکش کے سفیر رہ چکے ہیں، نے مجھے ظہرانے پر مدعو کیا اور وہاں بھی مراکشی باشندوں کے قتل کا واقعہ زیر بحث رہا۔
وطن واپسی پر میری ملاقات جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے ہوئی۔ دوران ملاقات انہوں نے انکشاف کیا کہ جاں بحق ہونے والے مراکشی باشندوں کی قبروں کی مٹی سے ایک خاص قسم کی خوشبو آرہی ہے اور وہ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جاں بحق ہونے والے دونوں افراد شہید ہیں۔ میں بھی جب فاتحہ کیلئے شہداء کی قبروں پر گیا تو مجھے بھی کچھ اسی طرح کا احساس ہوا۔ اس موقع پر میں نامور اسکالر اور مقرر مولانا طارق جمیل جن کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد مراکش میں بھی موجود ہے، کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو مراکشی باشندوں کے لواحقین سے تعزیت کے لئے خصوصی طور پر مراکش تشریف لے گئے اور انہیں صبر و تحمل کی تلقین کی۔ مراکش کے باشندوں کے کراچی میں قتل سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوئی بلکہ پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر منفی تاثر ابھرا۔ افسوس کہ آج کئی روز گزرجانے کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہ لائی جاسکی۔ واقعہ کے بعد میں جتنے روز بھی مراکش میں رہا مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا کہ جیسے وہاں کا ہر شخص مجھ سے یہ سوال کررہا ہو کہ ’’ہم پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں تو پھر پاکستان میں ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا؟‘‘
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ملک جسے ہمارے آبائواجداد نے لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا، دہشت گردی، خود کش بم دھماکے اور قتل و غارت گری کرکے ہم اسے کس طرف لے جارہے ہیں جس سے عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ آج ہم جس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں اسے ہی کاٹ رہے ہیں۔ کاش کہ ہم اپنے اندر کی تلخیوں اور نفرتوں کو نکال کر محبت و ایثار بانٹنے والے اور آگ لگانے کے بجائے آگ بجھانے والے بن جائیں۔ تاریکیوں کا شکوہ کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے بجائے ایسے کام کریں جو دوسروں کی زندگیوں میں آنسوئوں کے بجائے خوشیاں لاسکے۔
تازہ ترین