• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اساطیری ادب‘ رزمیہ شاعری‘ لوک کہانیوں‘ فلسفیوں کی بحثوں میں ایک غیرمعمولی انسان کا تصور رہا ہے‘ جسے مرد مومن‘ انسان کامل اور آج کل سپرمین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کتنی فلموں اور ڈراموں میں سپرمین غیرمعمولی کارنامے انجام دیتے دکھائے جاتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں صرف محمد علی ہی ایسا شخص نظر آتا ہے جسے ’’سپرمین‘‘کہہ کر پکارا جائے‘Super Man in a Real Life ۔
مکا بازی یا باکسنگ کا کھیل یوں تو صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے‘ اولمپک مقابلوں میں شمولیت کے بعد‘ اس میں عوام کی دلچسپی میں اضافہ ہوا‘ پھر بھی یہ کھیل ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکا۔ 1958ء میں نوعمر ’’کاسیس کلے‘‘ مکا بازی کے کھیل میں وارد ہوا اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں روم میں منعقد ہونے والے 1960ء کے اولمپک مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے امریکہ کیلئے گولڈ میڈل جیت لایا۔ اسٹائل‘ تکنیک‘ مہارت اور ابلاغ پر قدرت کی وجہ سے علی کی مقبولیت آفاق عالم تک پہنچ گئی۔ صرف اگلے چار برس کے عرصے میں یعنی 1964ء تک اس اکیلے شخص نے کھیل کو وہ عروج بخشا جو علی کے آنے سے پہلے حاصل تھا نہ بعد میں برقرار رہا۔ اس کھیل کے پیشہ ور کھلاڑی اعلیٰ ترین مقابلوں میں بھی چند ہزار ڈالر معاوضہ حاصل کر پاتے تھے‘ علی نے ایک ہی جست میں ایک مقابلے میں پچاس لاکھ ڈالر اور دوسرے مقابلے میں اسی لاکھ ڈالر وصول کئے۔ حالانکہ وہ اس مقابلے میں شکست کھایا تھا۔ محمد علی کے رنگ میں اترنے سے پہلے دنیا بھر میں چند ہزار لوگ ہی عالمی چیمپئن کے نام سے آگاہ تھے لیکن جب علی چیمپئن بنا تو کروڑوں نہیں‘ اربوں لوگ اس کے نام سے آشنا تھے اور اس کے آئندہ مقابلوں کا انتظار کرتے۔ علی کے بعد جن چند لوگوں کے نام سے عالمی سطح پر پہچان باقی ہے وہی ہیں جن کا علی سے مقابلہ ہوا اور وہ شکست کھا گئے۔ آج علی کے منظر سے ہٹنے کے بعد دنیا بھر میں چند لاکھ لوگ ہی رہے ہوں گے جو آج کے چیمپئن کی شکل اور نام سے واقف ہوں لیکن اس کے کھیل چھوڑنے کے تیس برس گزرنے کے بعد دنیا بھر میں اب بھی سینکڑوں کروڑ لوگ اس کی تصویر پہچانتے اور ا س کے نام سے واقف ہیں‘ اگرچہ اب باکسنگ مقابلوں کے معاوضے بہت زیادہ ہو گئے ہیں لیکن علی کی بخشی ہوئی مقبولیت واپس نہیں آئی۔ بلاشبہ محمد علی صاحب طرز کھلاڑی تھا جس کے طریقے اور انداز کی کوئی دوسرا نقل بھی نہیں کر سکا۔ کھیل میں اس کی مہارت اور ابلاغ پر اس کی قدرت نے اس وحشت اثر کھیل کو ’’ فن لطیفہ‘‘ بنا دیا۔ اس نے عقاب کی طرح جھپٹنے اور شیر کی طرح پھاڑ کھانے والی وحشت کو تتلی کی طرح اڑنے اور مگس کی طرح کاٹنے والا کھیل بنا دیا۔
اندھی قوت اور طاقت کے بے فکروں کا کھیل ہی علی کا میدان نہیں تھا جس کو اس نے انداز و بیان کے زور سے شہرت دوام بخشی اور پوری دنیا یک دم چونک گئی اور اس کی توجہ باکسنگ کے رنگ کی طرف مبذول ہوئی۔ وہ اپنے عروج کی طرف گامزن تھا کہ صرف بائیس برس کی عمر میں اس نے ایک حیرت انگیز مگر اپنے معاشرے میں ایک غیرمقبول فیصلہ کر کے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا‘ یہ عالمی چیمپئن بننے کے ساتھ ہی اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلما ن ہو جانے‘ کاسیس کلے سے محمد علی بن جانے کا فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کے اعلان نے اس کی ذاتی شہرت کو باکسنگ چیمپئن بننے سے کہیں زیادہ شہرت اور شناخت بخشی‘ اس فیصلے کے بعد اس کی نسل، امریکی معاشرے پر (آنے والے دنوں میں) بہت ہی منفرد مگر گہرے اثرات مرتب کئے۔ وہ امریکی قوم میں مقبول ہی نہیں محبوب بھی تھا‘ ایک ذرا جھٹکے کے بعد امریکی معاشرے نے اسے مسلمان کی حیثیت سے قبول کر لیا اور اس کی محبوبیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کے بارے میں امریکہ اور یورپ کا تجسس روز افزوں ہونے لگا‘ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے اثر سے بیس لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا‘ جس میں بھاری اکثریت اس کے ہم نسل یعنی سیاہ فام امریکیوں کی تھی۔ تقریباً باون (52) برس گزرنے کے بعد اس کے اثرات ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر دے مارنے سے اٹھنے والے مدو جزر کی طرح اب بھی امریکی معاشرے میں موجود ہیں اگرچہ وہ لہر کمزور پڑ گئی لیکن رکی نہیں‘ آج بھی امریکہ میں سالانہ بیس ہزار سے زیادہ لوگ اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ 9/11کے بعد دہشت گردوں اور منفی پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہے‘ جس نے امریکی اور یورپی معاشرت کو مسلمانوں کے بارے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ امریکی معاشرہ دنیا کے کسی بھی معاشرے کے مقابلے میں زیادہ کشادہ ظرف اور غیرمتعصب ہے‘ اس نے کلے کو محمد علی کے طور پر نہ صرف قبول کر لیا بلکہ یہ نام ان کی نظروں میں زیادہ جچنے لگا مگر قدرت علی کو ابھی نئی منزلوں اور بلندیوں سے آشنا کرنے والی تھی۔ جونہی اس نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے عروج کی آخری سیڑھیوں پر قدم رکھا تو ریاست کے بعض عاقبت نااندیش بزر جمہروں نے اسے مسلمان ہونے کی سزا دینے کیلئے‘ لازمی فوجی بھرتی کے قانون کے تحت‘ ویت نام میں جنگ کی وجہ سے فوجی خدمات کیلئے طلب کر لیا۔ 26سالہ علی نے جو اپنی شہرت اور پیشہ ورانہ زندگی کے عروج پر تھا‘ اپنے مستقبل کی پروا کئے بغیر فوجی خدمت انجام دینے سے انکار کر دیا۔
اس نے ذرائع ابلاغ کے سامنے اعلان کیا کہ ’’میر امذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بے گناہوں کا خون بہائوں اور بے وجہ جارحیت کروں‘‘۔ ایک طنزیہ سوال کے جارحانہ جواب میں اس نے کہا کہ ’’زردرو قوموں کے کسی فرد نے مجھے تکلیف دی نہ نقصان پہنچایا‘ نہ ہی ویت کانگ امریکہ کے اندر گھس آئے ‘ نہ ہی ہماری سرحدوں پر حملہ آور ہیں تو میں کس وجہ سے ان کے خلاف جنگ کیلئے ہزاروں میل دور ان کے گھروں پر حملہ کروں؟ ‘‘ایک اور سوال کے جواب میں اس نے کہا ’’میرا کوئی دشمن نہیں ہے‘ اگر کوئی دشمنی ہو سکتی ہے تو وہ سفید فام قوموں سے جنہوں نے ہمیں دور دراز وطن سے اغوا کر کے امریکہ میں فروخت کیا‘ ہمیں خاندان سے الگ کیا‘ وطن سے دور ہماری شناخت گم کر دی‘ ہمارا مذہب تبدیل کیا‘ ہمیں بازار کی جنس بنایا‘ ہماری خرید و فروخت کی‘ ہم آزاد تھے‘ غلام بنا دیئے گئے‘ جانوروں سے زیادہ مشقت ہم پر مسلط کی‘ وہ بھی بغیر کسی معاوضے کے‘ ہمارے حقوق گھوڑے اور بیل سے بھی کم تھے‘ ہمیں انسان کی سطح سے گرا کر جانور بنا دیا‘ تعلیم‘ ترقی‘ عزت نفس نام کی کوئی چیز ہمارے لئے نہیں تھی‘ آج بھی جب فوجی خدمات کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے تو مجھے اور کروڑوں سیاہ فام امریکیوں کو ووٹ کا حق بھی نہیں دیا گیا‘ وہ ووٹ جو دو سفید امریکیوں میں سے کسی ایک کو دیں گے!‘‘
اس کی شخصیت کے سحر اور ابلاغ کی تاثیر نے انصاف پسند امریکی نوجوانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا‘ جلد ہی امریکہ کے اندر ویت نام جنگ کے خلاف رائے عامہ منظم ہونے لگی اور سال دو سال کے اندر سیاہ فام افریقن‘ امریکیوں کو ووٹ کا حق حاصل ہو گیا‘ علی کے واضح مؤقف‘ ٹھوس دلائل نے امریکیوں کو قائل کر لیا۔ اس کی مقبولیت ملک کے اندر اور ملک سے باہر کئی گنا بڑھ گئی‘ شرق بعید کی قومیں کمیونسٹ ممالک کی آبادیاں بھی اس کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکیں‘ اگرچہ اس کے اعزازت چھین لئے گئے تھے اور کھیل کے میدان اس کیلئے ممنوع قرار پائے‘ اس کو معاشی تنگ دستی اور غیریقینی مستقبل کے اندیشے نے بھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹا سکے‘ پانچ سال جیل کی سزا اور دوسری پابندیاں آخر کار تین سال کے بعد سپریم کورٹ کے حکم سے کالعدم قرار پائیں اور علی نے طویل وقفے کے بعد باکسنگ کے رنگ میں قدم رکھا۔ جلد ہی دوبارہ عالمی چیمپئن تھا‘ علی اب تک واحد مثال ہے جو نامساعد حالات کے باوجود تین مرتبہ عالمی چیمپئن قرار پایا۔
باپ‘ بیٹا‘ دوست‘ مبلغ‘ مصلح‘ ان پر الگ الگ باب باندھے جا سکتے ہیں‘ ا ن کی ہر حیثیت منفرد‘ پرکشش اور قابل تقلید ہے
مرگ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے
تازہ ترین