• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے کرائون پرنس اور موروثی چیئرپرسن ( کیونکہ اس پارٹی کے جنم سے لیکر آج تک پارٹی کے اندر کبھی انتخاب نہیں ہوتے بلکہ اب کے تو وصیت نامے کے ذریعے ہی گدی نشینی عمل میں آئی۔ مبینہ وصیت نامے کے مبینہ دستاویز میں بے نظیر بھٹو کے مبینہ طور دستخط لکھنے اور کرنے والے ایک آرٹسٹ کے دوست اور بہی خواہ اب آرٹسٹ کی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں)۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو کی ایسی مبینہ وصیت کے اصلی اور مصدق ہونے کی تصدیق کسی اور نے نہیں، کہتے ہیں مارک سیگل جیسے واشنگٹن کے جید لابیسٹ نے کی تھی لیکن سندھ میں جاننے والوں کے پاس اپنی کہانیاں ہیں۔ لوگوں اور دریا کے منہ کب کس نے باندھے ہیں؟
دراصل جس طرح جناح صاحب کا پاکستان اصولی قانونی اور اخلاقی طور سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو ختم ہو گیا اسی طرح بھٹو کی بنائی ہوئی پاکستان پیپلزپارٹی اس دن لیاقت پارک راولپنڈی میں قتل ہو گئی تھی جس شام بے نظیر قتل ہو گئیں۔ باقی پارٹی کا کریا کرم یا آخری رسومات زرداری فیکٹر نے آکر ادا کیں۔
بلاول بھٹو کی گڑھی خدا بخش بھٹو میں بےنظیر بھٹو کی چھٹی برسی پر تازہ دھماکہ خیز تقریر اصل میں بھٹو کی پارٹی کو مزید نقصان اور ان کے والد اور پھوپھو پیاری اینڈ فیملی کے ہاتھوں پہنچی ہوئی تباہی سے بچانے سے زیادہ بغیر لگی لپٹی اگر کہا جائے تو اپنے عظیم والد کی دن بہ دن عوام اور پارٹی کارکنوں کی نظروں میں بڑھتی غیر مقبولیت سے بچانے کی ایک ریسکیو مشق ہے یا اسی نوعیت کی ایک ڈیمیج کنٹرل ایکسر سائز سے کچھ زیادہ نہیں تھی۔دوسرے الفاظ میں بلاول بھٹو کی طرف سے بخیہ گری کی زبردست کوشش تھی جو اس کے پردے کے پیچھے قماش گروں نے اردو زبان میں جوش خطابت اور شاعری کے اسکرپٹ سے مزین کی ہوئی تھی۔
چاہے ہمارے لیپ ٹاپ دانشور اور جید صحافی اور کالم نگار جن میں سے کچھ ضیاء سے لیکر زرداری تک جیسے حکمرانوں کے ساتھ گوڈا گوڈے سے ملا کر بیٹھتے تھے کچھ بھی نام دیں۔ انہیں بلاول کے روپ میں بھٹو کا نیا جنم دکھائی دیا پھر طالبان کے خلاف اعلان جنگ (جس کیلئے تاریخ نے یا اس کے بیانیے پر قابض پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں پانچ سال دیئے تھے کچھ بھی عملاً نہیں کیا سوائے اپنے اور عوام اور پارٹی کارکنوں کے درمیان دیوار برلن اٹھانے کے جو عوامی ملکیت پر بلاول ہائوس کے آس پاس اور نوڈیرو میں کھڑی کی ہوئی دیواروں سے بھی زیادہ اونچی ہوتی گئیں۔ اب ان دیواروں کو دھکا دینے والے لوگ ہی لد گئے کہ لوگوں کو جس نے بھی دھکا دیا خوب دھکا دیا ہے ۔
باغی بلاول نے اپنے عظیم المرتبت ابّا آصف علی زرداری کے پانچ سالہ سنہری دور صدارت کے لئے فرمایا کہ’’ پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے انہیں ایوان صدر کا قیدی بنایا ہوا تھا اور ان کے ہونٹ بھی سی لئے تھے یعنی ایوان صدر میں واجد علی شاہ جیسے دن اور راتیں گزارنے والا یہ صدر زیرو پوائنٹ تک اختیارت رکھتا تھا۔ انہی اختیارات کے تحت انہوں نے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو اپنے عہدوں میں بذریعہ کلوروفارم توسیع بھی دی۔ سندھ کی قسمت کے فیصلے کرنے کو اپنا پنجابی نژاد ملک رحمٰن کو سندھ کی نشست سے منتخـب کرواکر سندھ پر ایک طرح کا وائسرائے بنا کر بھیجا تھا- کیلی گولا کی طرح اپنی سیاسی دوڑ کے کئی گھوڑے بطور سینیٹر بھی منتخب کرائے۔
سندھ میں لاڑکانہ سے اغوا کئے ہوئے سماجیات میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر امیر ابڑو کے اغوا سمیت سندھ میں اغوا برائے تاوان کے ایک قومی صنعت کی شکل اختیار کئے جانے کی بھی بات ہوتی اور اس پر ذمہ دار انتظامیہ اور حکومت کی پکڑ اور بازپرس بھی ہوتی۔
سندھ کے اور ملک کے اکثر عوام بلاول کی تقریر کو ایسے نہیں دیکھ رہے جیسے ہمارے لیپ ٹاپ دانشور اور شام آٹھ بجے کے بعد طالبان کے خلاف جنگ گلاسوں کی چھنک پر لڑنے والے لبرل ایلیٹ یا اشرافیہ دیکھ رہی ہے۔ ان میں وہ بھی تو شامل ہیں جنہوں نے فوجی آمر مشرف کے چور دروازے سے اقتدار میں آنے پر ایک ٹانگ پر انقلابی مجرے کئے تھے۔
غریب لوگ تو بلاول کے خطاب کو اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بچوں کیلئے پرائمری ٹیچر کی نوکری کیلئے لاکھوں روپے کسی جیالے یا وزیر کے ٹائوٹ نے لئے تھے۔ ان کی یونیورسٹی میں خاندان اور گائوں کے پہلی پوزیشن ہولڈر لڑکی کی اس کی تمام میرٹ کے باوجود کسی وزیر اور ایم این اے کی سفارش کے بغیر تقرری نہیں ہو سکتی۔ ملک میں ایک دن عیسائی وزیراعظم دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرنے والے بلاول کی پارٹی پر زبردستی تبدیلی مذہب کی شکار لڑکیوں کے والدین ان پیروں وڈیروں سے دہشت زدہ ہیں جو پی پی پی میں ہیں۔
بلاول بھٹو یہ عام آدمی کی پارٹی اب نہیں رہی کہ تمہاری تقریر سے بمشکل ایک دن بعد تمہارے عظیم والد سندھ کے طاقتور لیکن جھیل کے پرندے نما سرداروں کو منوانے ان کے محلات پر گئے اور انہیں اپنے میزبانوں کی طرف سے اونٹ اور ڈاچی (اونٹنی) کا تحفہ پیش کیا گیا۔ یاد آیا کہ اس ایوان صدر کے ’’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے اس بیچآرے قیدی کو بالآخر اپنے اونٹ، گھوڑے بکریاں اور پیر اور جناتی بابے رکھنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہی ’’نئےسندھی‘‘ فوجی آمر کے گارڈ آف آنر میں ایوان صدر سے باعزت رخصتی ہوئی۔ اب وہ دودھ پینے والا بِلّا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خون اور دودھ پینے والے بِلّے اپنی باری باری آتے ہیں۔
اکثر سندھی عوام تو بھٹوئوں کے سیاسی اور روحانی مزارعے تھے اور وہ زرداریوں کو جہیز میں ملے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھٹوئوں کی پیپلزپارٹی کو مزید تباہی سے کیسے بچایا جائے؟ بلاول کی ایسی تقریر کو کئی بھٹو نواز تجزیہ نگار اس ضمن میں ایک کاوش سمجھ رہے ہیں۔ میں نے ایسا سوال سندھ میں صحافت کے ذہین طالب عالم اور سماجیات کے قریبی مشاہدہ نگار سے کیا تو اس کا جواب تھا کہ پیپلزپارٹی کا خاتمہ ناگزیر ہے کہ زرداری فیکٹر کے اس سے الگ یا مائنس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ جامہ صد چاک بدل دینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے
’’زرداری صاحب اپنی طاقت اور اقتدار کیلئے اپنا کچھ بھی قربان کر سکتے ہیں۔ یہ سندھی صحافت کا ذہین طالب علم اور سماجیات کا مشاہدہ نگار پی پی پی کا شدید حمایتی اور کسی حد تک زرداری کا معقول دفاع کرنے والا میرا دوست کہہ رہا تھا۔
مجھے میرے ایک دوست کی بات یاد آئی جو اس نے بے نظیر بھٹو کے قتل سے کچھ ماہ قبل کہی تھی کہ ملک اور لوگ اب بھٹو خاندان سے مزید قربانیاں لینا بند کریں۔
کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ جب بلاول ناراض ہو کر بیرون ملک جا بیٹھا تھا تو اسے ابّا نے واپس آ کر پارٹی سنبھالنے کو کہا تھا تو اس کا جواب تھا‘‘ کس پارٹی کی بات کرتے ہیں۔ وہ پارٹی جو فریال تالپور اور ٹپی چلا رہے ہیں؟‘‘ وہ پارٹی جو کبھی کثیر الطبقاتی پارٹی ہوا کرتی تھی جس میں گدھا گاڑی بان سے لیکر پجیرو والا بھی شامل ہوا کرتا تھا اب اسی میں زیادہ تر رہزن وڈیرے، ڈان نما سیاسی کرمنل اور جیالوں سے بنے کروڑ اور ارب پتی شامل ہیں۔ رہی جمہوریت کی مضبوطی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بات تو گرگشت کے گرگوں کو اس سے کیا لینا دینا کہ ایک بھیڑئیے پر دوسرا جھپٹے گا جب اس کی آنکھ لگ جائے گی۔ این آر او کے مذاکرات بھی جاری تھے تو سی او ڈی پر دستخط بھی۔
کیا اب اب اسی بلاول کو بھی اس طرح گھیر گھار کر واپس لایا گیا ہے جس طرح بے نظیر بھٹو کو لایا گیا تھا، یا جس طرح مرتضیٰ بھٹو کو لایا گیا تھا؟
یا کہ وہ اپنے ابّا کا سفید پوش لائوڈ اسپیکر ہے کہ جو بات ابّا نہیں کہہ سکتے وہ بیٹے سے کہلوائی جاتی ہے۔
قبائے زخم کی بخیہ گری سے کیا ہوتا
مرے لہو میں تسلسل تیرے خیال کا تھا
تازہ ترین