• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چھ برسوں سے پاکستان میں افراط زر کی شرح بہت زیادہ اونچی رہی ہے۔ افراط زر کی اونچی شرح کو بجا طور پر ظالمانہ ٹیکس کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے کم آمدنی والے وہ غریب افراد زیاد متاثر ہوتے ہیں جنہیں پہلے ہی دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر میسر نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کی بھی بہت سی معاشی پالیسیاں جو افراط زر میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں نہ صرف مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور سے براہ راست متصادم ہیں بلکہ وہ آئین پاکستان کی بہت سی شقوں کی روح کے بھی منافی ہیں۔ آیئے مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور اور آئین پاکستان کی مختلف دفعات کی روشنی میں موجودہ حکومت کے گزشتہ چھ ماہ میں اٹھائے گئے کچھ اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ بلاواسطہ (براہ راست) ٹیکسوں میں اضافہ کر کے ٹیکسوں کے نظام کو منصفانہ بنایا جائے گا اور ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا لیکن موجودہ مالی سال کے وفاقی و صوبائی بجٹ میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ موجودہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں 2598ارب روپے کی وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے اگر ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موثر طور پر نافذ کیا جائے تو اس مد میں 500ارب روپے کی وصولی کی گنجائش ہے۔ اس نقصان کے ایک حصے کو پورا کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دی ہے جو کہ براہ راست ٹیکس نہیں بلکہ بالواسطہ ٹیکس ہے۔ اس طرح ٹیکسوں کے نظام کو مزید غیر منصفانہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کر کے19کروڑ عوام کو مزید نچوڑنے کے باوجود حکومت کو خطیر رقم کے بجٹ، خسارے کا سامنا ہے جس کو پورا کرنے کے لئے حکومت بڑے پیمانے پر ملکی قرضے لے رہی ہے اور بے تحاشا نوٹ چھاپ رہی ہے جس کی وجہ سے افراط زر بڑھ رہا ہے۔ یہ تمام اقدامات استحصال کے زمرے میں آتے ہیں جو کہ آئین پاکستان کی شق تین کے منافی ہیں۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کرنے کو یقینی بنائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے‘‘ اس پر عمل تو کیا ہوتا ،موجودہ حکومت نے ٹیکس کی چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے سرمایہ کاری کے نام پر ایمنسٹی کی اسکیموں کا اجراء کیا ہے جو کہ مالیاتی این آر او ہیں اور این آر او کو سپریم کورٹ بھی کالعدم قرار دے چکی ہے۔ یہی نہیں، بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات ٹیکس کی چوری اور بدعنوانیوں کے ذریعے حاصل کی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں چنانچہ منشور کے مطابق ضرورت اس امر کی تھی کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق111(4)پر نظرثانی کی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا کیونکہ اس سے ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے مفادات مجروح ہوتے ہیں۔ اس پالیسی کو برقرار رکھنا اختیارات کے ناجائز استعمال اور امانت میں خیانت کے زمرے میں آتے ہیں جو کہ معیشت اور سلامتی کے لئے تباہ کن ہیں۔
اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ وطن عزیز میں افراط زر کی شرح اونچی رہنے کی وجوہات میں مرکزی و صوبائی حکومتوں اور اسٹیٹ بینک کی وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی ناقص پالیسیاں، ٹیکسوں کا غیر منصفانہ نظام ،معیشت کو دستاویزی بنانے میں حکومت کی عدم دلچسپی ، کالے دھن کی حوصلہ افزائی ، ریاست اور ریاستی اداروں کے تعاون سے ٹیکسوں کی چوری، حکومتوں کا ٹیکس کی چوری، قومی خزانے سے لوٹی ہوئی رقوم اور بدعنوانیوں سے کمائی ہوئی دولت کو وقتاً فوقتاً قانونی تحفظ فراہم کرنا بینکاری کا استحصالی نظام، حکومتی شعبے کے اداروں کی ناقص کارکردگی، سیاسی بنیادوں پر وضع کردہ موجودہ این ایف سی ایوارڈ، مالیاتی و انٹلیکچوئل کرپشن، توانائی کا بحران، بچتوں اور سرمایہ کاری کے بجائے قرضوں کی معیشت اپنانا ،نج کاری کا قومی مفادات سے متصادم پروگرام، دہشت گردی کی جنگ کے نقصانات ،سودی معیشت پر اصرار ،موجودہ حکومت کا معاہدے کے مطابق امریکہ سے اتحادی امدادی فنڈ کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کے بجائے امریکی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے تباہ کن شرائط پر ضرورت سے زائد حجم کا قرضہ لینا، روپے کی قدر کو گرنے دینا، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے معیشت میں ساختیاتی اصلاحات کرنے کے بجائے عوام پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے چلے جانا اور حکومت و قوم کا اپنے وسائل سے بڑھ کر گزارہ کرنے کو وتیرہ بنانا شامل ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت آئین پاکستان کی دفعات25(الف) 37(سی) 38(ایف) اور 227کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے مگر ساتھ ہی قانون کی حکمرانی کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔
مندرجہ بالا خرابیوں کی ذمہ داری بڑی حد تک مرکزی و صوبائی حکومتوں، پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلیوں، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک سمیت ریاست کے تمام ستونوں پر عائد ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں کے نظام کو استحصالی رکھنے ،جنرل سیلز ٹیکس کی شرح اونچی رکھنے اور بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کے نرخ بڑھاتے چلے جانے کو عملاً قومی اسمبلی ،سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی پرجوش تائید حاصل ہے وگرنہ وفاق کو ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موثر طور پر نافذ کرنا ہو گا اور صوبوں کو زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانا ہو گا جس کے لئے وہ قطعی تیار نہیں ہیں۔ اگر مرکز اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد اور وصول کریں، ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں پر مروجہ قوانین کے مطابق ٹیکس وصول کریں، ٹیکسوں کی رقوم کو دیانتداری سے خرچ کریں اور معیشت کو دستاویزی بنائیں تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح17فیصد سے کم کر کے5 فیصد کرنے، پیٹرولیم کی مصنوعات ،بجلی و گیس کے نرخوں میں زبردست کمی کرنے اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے زیادہ رقوم مختص کرنے کے باوجود بجٹ خسارہ پیدا ہی نہیں ہو گا چنانچہ حکومت کو اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے داخلی قرضے لینے اور نوٹ چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اب بھی اگر ایسا ہوا تو وطن عزیز میں افراط زر کی شرح5فیصد سے کم رہے گی، معیشت تیزی سے ترقی کرے گی اور عام آدمی کی حالت بہتر ہوگی بصورت دیگر بحیثیت قوم خودکشی کا راستہ کھلا ہے۔
تازہ ترین