• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھ جیسے کو دن کیلئے اس تضاد کو ہضم کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ جہاں باسٹھ تریسٹھ 63-62جیسی ’’مقدس‘‘ شقوں کے ساتھ سر عام اجتماعی زیادتی کی گئی وہاں آرٹیکل 6 پر عمل درآمد کا جنون کیا معنی رکھتا ہے؟ پرویز مشرف کے دور میں میرا سٹانس کیا تھا؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن میں اس زہریلی حقیقت سے، بالخصوص بھٹو کی پھانسی کے بعد بیحد آگاہ ہوں کہ واقعی پھانسی گھاٹوں پر سبھی گھاس نہیں اگتی، نفرت، غصے، جنون اور انتقام کی کوشش کا انجام بہت بھیانک ہوگا اور پھر سابق آرمی چیف کو ’’سنگل آئوٹ‘‘ کرنا صریحاً ناانصافی اور انتقام کہ اکیلا آدمی تو ایک مرلہ زمین پر قبضہ نہیں کرسکتا جبکہ یہاں تو معاملہ بھاری مینڈیٹ کے تختہ کا ہے اور ایسا تب ہوا جب وہ فرد واحد ’’موقعہ واردات‘‘ پر موجود ہی نہ تھا۔
کیا چوہدری شجاعت حسین جیسی بصیرت، ضمیر اور اخلاقی جرأت ان سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں سے کسی ایک میں بھی موجود نہیں جو موسم بہار میں پرویز مشرف کے ساتھ تھے؟ صاحب ذہن و ضمیر نے سو فیصد درست کہا کہ ........ ’’پرویز مشرف ان کی ساری کابینہ، فوج اور مجھ پر بھی کیس چلنا چاہئے۔‘‘ سیلیکٹو انصاف بدترین ناانصافی کا دیباچہ ہوگا جس کے بطن سے خیر برآمد ہوتا کم از کم مجھے تو دکھائی نہیں دیتا اور ویسے بھی میں سوچتا ہوں کہ اگر پاک فوج کا سپہ سالار ہی ’’غدار‘‘ ہے تو باقی کسی کے پلے کیا رہ جائے گا؟ صرف افواج پاکستان ہی نہیں اس ملک کے عوام کا عمومی مورال کیسا ہوگا کہ بے شک بیشمار پاکستانی آج بھی پرویز مشرف کے دور کو عزت اور محبت سے یاد کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ آف ’’این آر او‘‘ پارٹی نے ٹھیک کہا کہ ....... ’’فوج واضح کرے کہ مشرف کے ساتھ نہیں کیونکہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے۔‘‘ واقعی ’’خاموشی‘‘ نیم رضا مندی ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ پوری رضا مندی ہوتی ہے لیکن خاموشی کی زبان سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی لیے میری دعا ہے کہ اللہ پاک خاموشی کی زبان سمجھنے کو سیاسی مافیاز کیلئے آسان فرمائے۔ اول تو یہ ممکن نہیں، ناممکن ہے کہ کوئی پرویز مشرف کا کچھ بگاڑ سکے لیکن خاکم بدہن اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو ’’سیاسی مافیاز‘‘ اور یہ ’’موروثی کمپنیاں‘‘ اتنی وحشی ہو جائیں گی کہ لوگ پنجاب میں سکھا شاہی اور بغداد میں تاتاریوں کے مظالم بھول جائیں گے۔ یہ تو ’’بوٹ‘‘ کا خوف ہونے کے باوجود لوٹ مار سے باز نہیں آتے اور پورا پورا خاندان لیکر پاکستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ........ اگر یہ خوف بھی ختم ہوگیا تو یہ مادرپدر آزاد جمہوری مافیاز مادر وطن کے ساتھ کیا کرینگے؟ میں تو یہ سوچ کر ہی لرز اٹھتا ہوں اور جو میں نے عرض کیا اسے سمجھنے کیلئے سقراط ہونا ضروری نہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی اور اب ن لیگ نے اہلیت اور دیانت کی کوئی داستان رقم کی ہوتی ...... عوام کو کچھ بھی ڈلیور کیا ہوتا تو شاید آج میں کچھ اور لکھ رہا ہوتا لیکن بدقسمتی سے سب کچھ اس کے برعکس تھا اور ہے سو میرے اس کم کہے کو ہر کوئی زیادہ جانے کہ میں نے تو صرف اک خاص سوچ کو ’’ٹریگر‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے اور اب آخر پر ایک خوبصورت خط
’’پیارے بھائی حسن نثار! السلام و علیکم
آپ پریشانی کے عالم میں ہیں۔ آپ کی تحریروں اور باتوں سے رنج و ملال و ناامیدی ٹپکتی ہے۔ آپ کے الفاظ روتے اور جملے ماتم کرتے ہیں اور شاید آپ ہی ٹھیک ہیں۔ انتہا یہ کہ یہاں کے جنگل کٹ چکے، گلیشئرز پگھل چکے، دریا گندے نالے بن چکے۔ یہاں کی چیلیں اور کوے بھی صدقے کا زہریلا گوشت کھا کھا کر DICLORAN نامی دوا کی مہلک زیادتی کے باعث فنا ہورہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دودھ کے لالچ میں جانوروں کو خطرناک ٹیکے لگائے جاتے ہیں پھر ان جانوروں کا گوشت انسانوں کے کام آتا ہے اور چھیچڑے بطور ’’صدقہ کا گوشت‘‘ چیلیں، کوے، گدھ کھاتے ہیں۔ یہ ’’زہریلا صدقہ‘‘ شاپروں میں بند راوی پل پر ہوم ڈلیوری کیلئے بھی دستیاب ہے۔ انسان نما حیوان، دیکھی ان دیکھی بلائیں دو وقت کی روٹی کیلئے کیا کچھ نہیں کررہے اور دوسری طرف ممنون حسین جیسے آرائشی بے ضرر صدر کی تصویروں پر پندرہ پندرہ لاکھ روپے اجاڑے جارہے ہیں۔ نام نہاد قائدین نے قائداعظم کے ملک کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ لوگ ایک گھنٹہ میں جتنا پیسہ پیدا کرلیتے ہیں وہ اچھا خاصا پروفیشنل آدمی دس جنموں میں بھی نہیں کرسکتا۔ کہاں چار پہیوں والی ریڑھی کہاں کروڑ دو تین کروڑ کی گاڑی۔ ان کی بیگمات کی ڈریسنگ ٹیبل پر موجود چند پرفیومز کی قیمت عام آدمی کی تمام تر اوقات سے زیادہ ہے۔ مزدور سال بھر میں جتنا کماتا ہے ان کے ایک جوتے کی مالیت اس سے زیادہ ہوتی ہے لیکن حقے کی نالی سے گڑ گڑ گڑ گڑ کرتے، سڑک کنارے سستا سا کنو کھا کر چھلکے ادھر ادھر پھینکتے ہم احمقوں کی طرح سو کھے بحر ظلمات میں ہوائی گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔ رگوں میں خون نہیں ہاتھ میں موبائل فون، لیڈر چنتے وقت غیرت سوئی رہتی ہے۔ جبکہ بہن بیٹی کے شرعی مطالبہ پر یہ بے غیرت قسم کی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ اینٹرٹینمینٹ کی انتہا کہ پورا ملک ’’ایکشن فلم‘‘ کا منظر پیش کررہا ہے۔ ریموٹ کے ذریعہ ’’سانحات‘‘ کا آپشن بھی موجود ..... کوئٹہ میں ایکشن دیکھنا ہے یا کراچی کا اور کوئی نہیں جانتا کہ یہود و نصاری ہمیں دیکھ کر خوف سے کانپ رہے ہیں یا خوشی سے اور کیا لکھوں سوائے اس کی کہ اپنا خیال رکھیں۔ ہمیں یہ اکلوتی آوا ز بہت عزیز ہے۔
والسلام
ڈاکٹر شوکت امان اللہ
تازہ ترین