• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین ایشیا میں سفارتکاری کی پالیسی کو موثر بناتے ہوئے افغانستان میں زیادہ سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔گزشتہ دو سالوں میں اس نے اپنے سفارتی اور معاشی کردار میں اضافہ کیا ہے، یہ صورتحال اس کی ماضی کی پالیسی سے روگردانی کی نوید سناتی ہے۔ چین کی سفارتی پالیسی میں اس تبدیلی کو پاکستان میں کم ہی توجہ حاصل ہوئی، ایک طرف تو چین پاکستان اور افغانستان کے خطے کی سطح پر سہ فریقی مفاہمت اور تعاون بڑھارہا ہے اور دوسری جانب چین نے یہ سہ فریقی کڑی پاکستان اور روس کے ساتھ جوڑی ہوئی ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا تیسرا دور کابل میں ہوا جبکہ چین، پاکستان اور روس کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے دوسرے دور کی میزبانی اسلام آباد نے کی تھی۔ مذاکرات کے دونوں ادوار سفارتی تذویرات کی صف بندی اور تجزیات کے تبادلے کے اہم فورم کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ افغانستان کے امن و استحکام میں چین کو بنیادی دلچسپی ہے کیونکہ چینی حکام کا کہنا ہے کہ چین وہ واحد اہم طاقت ہے جس کی سرحد اس سے ملتی ہے۔ سرحدی علاقوں کے تحفظ کو ناگزیر بنانے کی وجہ چین کی افغان پالیسی پر اثر انداز ہوئی، خاص کر صوبہ زنگ ژیانگ میں اور مشرق ترکستان اسلامی علیحدگی پسندوں کی تحریک کو قابو میں کرنے کیلئے جس کے افغانستان میں لڑنے والے گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ چین مستحکم افغانستان کا اس لئے بھی خواہاں ہے کیونکہ وہ اس ملک میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینا چاہتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بیجنگ نے افغانستان کے دوطرفہ تعاون کو بڑھایا ہے اور اس اقدام سے اس نے اپنی سفارتی پالیسی کو تقویت دی۔ چین کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کابل سے نیٹو افواج کے انخلاء کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے شاخسانے کی مرہون منت ہے۔ ایک سینئر چینی عہدیدار نے وضاحت کی تھی کہ افغانستان سے مغربی سرگرمیوں کے خاتمے کے بعد کابل کا امن و استحکام پڑوسی ممالک کی کوششیں پر منحصر ہو گا، چین اس سلسلے میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا لیکن ان کاوشوں کی کمان نہیں سنبھالے گا۔
خطے میں اہم کردار ادا کرنے اور خاص طور 2014ء کے بعد کے افغانستان میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں بیجنگ کی دلچسپی کی غمازی چین کی جانب سے آئندہ برس تیانجن شہر میں ’استنبول پراسس‘ کے وزراء کے اجلاس کی میزبانی سے ہوتی ہے۔ پاکستان اور چین کے افغانستان میں کئی مشترکہ اہداف ہیں دونوں ہی چاہتے ہیں کہ2014 ء کی اہم تبدیلی پرامن اور ہموار طریقے سے ہو، دونوں ہی افغانستان میں مختلف قوتوں کے مابین سیاسی مفاہمت کو ملک کے استحکام کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں، دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ داخلی سیاسی مفاہمت کی کمان افغانستان کے ہاتھ ہی میں ہونی چاہئے۔ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہ ہونےکو یقینی بنانا دونوں ممالک کے مشترکہ دلچسپی ہے اور دونوں ممالک متفق ہیں کہ خطے میں قیام امن اور استحکام کے فروغ کیلئے افغانستان کیلئے بین الاقوامی حمایت ضروری ہے۔ چین کے افغانستان کے ساتھ تعلق کے چار عناصر یا زوایئے ہیں جن میں امن اور تحفظ کا فروغ، معاشی ترقی کیلئے امداد کی فراہمی اور بین الاقوامی تعاون کو مستحکم کرنا۔ ان ترجیحات کو کابل نے بھی سراہا ہے، چینی حکام نے نشاندہی کی کہ یہ طریقہ اس امر کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ چین کی افغانستان میں رخنہ اندازی کی کوئی تاریخ نہیں ہے، چین نے کبھی اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اور نہ ہی کبھی نوآبادیاتی طاقت رہا۔ اس سے مثبت اور وسیع تر تعلقات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ چین کی افغان پالیسی کے حوالے سے سوچ کے 4 عناصر کا خلاصہ درج ذیل ہے جو کہ زیادہ تر چینی حکام کی بیان کردہ خصوصیات پر مشتمل ہے۔
امن و تحفظ: چین آئندہ سال کو اہم لیکن غیریقینی کے اندیشوں سے بھرپور سمجھتا ہے، اپریل2014ء میں ہموار طریقے سے صدارتی انتخاب افغانستان کی پرامن طور پر نیٹو افواج سے سیکورٹی امور کی منتقلی مکمل کرنے کی اہلیت اہم سمجھی جاتی ہے۔ چین افغانستان کی استعداد میں اضافے کی حمایت کرتا ہے تاکہ وہ سیکورٹی کی ذمہ داری مکمل طور پر سنبھال لے۔ کابل اور واشنگٹن کے مابین دوطرفہ سیکورٹی معاہدے(بی ایس اے) کے حوالے سے بیجنگ کا موقف محتاط ہے۔ اس پر دستخط ہونے کے بعد افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی نیٹو افواج کو یہاں قیام کی اجازت مل جائے گی۔ چینی سفارتکار اس فیصلے کے حوالے سے کابل کو خودمختار سمجھتے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ پڑوسی ممالک کے خدشات بھی دور کیے جانے چاہئیں اور اس معاہدے سے پڑوسی ممالک کی سیکورٹی پر سمجھوتا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ موقف پاکستانی موقف کی طرح ہے۔ بیجنگ کا متفرق موقف 2 مختلف خدشات کو متوازن کرنے کی عکاسی ہے۔ اگر فوجی تبدیلی ذمہ دارانہ طریقے سے ادا نہیں کی جاتی تو پہلے کا تعلق سیکورٹی کا خلاء پیدا ہونے کے خطرے سے ہے، دوسرے کا تعلق خطے میں طویل مدت کیلئے مغربی افواج کی آزادانہ طور پر موجودگی کا ہے۔ چینی عہدیدار ان اطلاعات کو مسترد کرتے ہیں کہ بیجنگ نے صدر حامد کرزئی پر بی ایس اے پر دستخط کرنے کیلئے زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چین عدم مداخلت کے اصولوں پر کاربند ہے تو ایسا اقدام چین کے کرنے کا نہیں ہے۔ چین کی افغانستان سے سیکورٹی امور کی توقعات کی عکاسی 2013ء میں کرزئی کے ستمبر2013ء کے بیجنگ کے دورے کے موقع پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان سے ہوتی ہے۔ اس بیان میں دونوں ممالک نے اپنی سرزمین دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عزم کیا تھا۔ اس اعلامیے میں ہر قسم کی دہشت گردی، انتہاپسندی اور علیحدگی کی تحریکوں کو مسترد کیا گیا تھا۔ افغانستان کی جانب سے بھی چین کی ETIM سے لڑنے میں مدد جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا گیا۔سیاسی مفاہمت: چین کا دیرینہ موقف ہے کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ چین افغانستان میں دیرپا امن کیلئے تمام اہم قوتوں اور طالبان کے مابین سیاسی مفاہمت اور مذاکرات کا حامی ہے۔ اگر قابل اعتماد صدارتی انتخابات اہم عنصر ہیں تو پھر دوسرا اہم عنصر مکمل طور پر کامیاب سیاسی تبدیلی کیلئے مفاہمت ہےحالانکہ بیجنگ کو طالبان اور ETIM کے نظریاتی اور دیگر مشترکہ طور پر منسلک امور پر دیرینہ خدشات ہیں تاہم وہ پھر بھی چاہتا ہے کہ طالبان افغانستان کی جانب سے شروع کئے جانے والے اور افغانستان میں ہونے والے امن عمل کا حصہ بنیں۔ اس عمل میں چینی حکام پاکستان کا اہم کردار سمجھتے ہیں اور اسلام آباد کی جانب سے لئے گئے اقدامات کو بھی سراہا ہے۔ وہ افغانستان میں پاکستان کے مثبت اثرورسوخ کو بروئے کار لانے کے خواہاں ہیں۔ چینی حکام کو یقین ہے کہ نیٹو کے دسمبر2014 ء کی ڈیڈلائن کے تناظر میں امن مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلنا مشکل ہے لیکن اپریل کے انتخابات کو دیکھتے ہوئے اب سفارتی کوششیں تیز ہو جانی چاہئیں لیکن اس سے قبل سنجیدہ مذاکرات کے امکانات معدوم ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ امریکہ دوحہ امن عمل کے تعطل کے حوالے سے اپنی مایوسی پر قابو پائے قومی اتفاق رائے کی حوصلہ افزائی کرے۔ اپنے تئیں بیجنگ افغانستان کی کئی سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت کے لئے کوشاں ہے تاہم اس حوالے سے کامیابی طالبان کے رویّے پر منحصر ہے، آیا وہ اپریل 2014ء کے بعد مزاہمت جاری رکھتے ہیں یا کابل سے مذاکرات کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان چینی حکام کا کہنا ہے کہ بالآخر افغانوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرنا ہے۔
معاشی ترقی: چینی ترجمان کا کہنا ہے کہ 2002ء سے چین نے افغانستان کی تعمیرو ترقی میں سرگرم کردار ادا کیا ہے، مالی امداد کے علاوہ افغانستان کیلئے بیجنگ کی مدد کم از کم 12 ترقیاتی منصوبوں، انفرااسٹرکچر کے منصوبوں اور ساتھ ہی چین کے کئی ملازمین کی صورت میں نظر آتی ہے۔ چین کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری تانبے کی کان اینک اور امو دریا بیسن تیل کے منصوبے میں ہے۔ چین کا تانبے کی کان کا منصوبہ افغانستان میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا منصوبہ ہے لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنا پر یہ ابھی فی الحال رکا ہوا ہے۔
بین الاقوامی تعاون: 2002ء سے چین نے افغانستان کے استحکام کیلئے بین الاقوامی کوششوں کی مکمل طور پر حمایت کی ہے۔ چین اب چاہتا ہے کہ افغانستان کے ہمسائے ممالک اس عمل کو مستحکم بنائیں۔ چینی حکام کے مطابق اسی لئے ان کا ملک خطے میں تعاون کیلئے سرگرم کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ چین نے اگلے استنبول عمل کی میزبانی کی پیشکش کرکے ایشیا میں قلبی حیثیت رکھنے والے عمل کی جانب مضبوط اشارہ کیا ہے، جس کے کردار کو چین خطے میں تعاون کے فروغ کیلئے اہم سمجھتا ہے۔ بیجنگ پاکستان، بھارت، روس، ایران اور ترکی کے مابین تعاون کو مربوط بنانے کا بھی خواہاں ہیں۔ خطے کے سیاق و سباق میں چین شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کے کردار کو بھی بڑھانے کا خواہاں ہے لیکن یہ ابھی وضع ہونا باقی ہے کہ ایسا کیسے ہوگا۔ چین ’نئے سلک روٹ‘ کے اقدام کا مخالف ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ تاریخی اہمیت کا حامل مذکورہ تجارتی راستہ بحال ہو ناکہ نئے گریٹ گیم کے حصے کے طور پر کوئی متبادل راستہ اس کیلئے وضع کیا جائے۔ ستمبر2013ء میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے دورے کے موقع پر چینی صدر شی جن پھینگ نے قدیم سلک روٹ کے ساتھ ایک معاشی گزرگاہ کی تجویز دے کر بیجنگ کی جانب سے خطے میں تعاون کے اس تصور پر عملدرآمد کرانے میں سنجیدگی کا اظہار کیا تھا۔
تازہ ترین