• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی میں ایک حشر بپا رہا ہے کہ سرکاری پارٹی کے قائد نے لفظ تماشا کیوں استعمال کیا ہے، حالاں کہ یہ لفظ گزشتہ اسمبلیوں کے قیام کے بعد عوام کے ساتھ اراکین مسلسل استعمال کر رہے ہیں مگرچوں کہ عوام کا نمائندہ اصل میں کوئی بھی احتجاج کرنے والا نہیں ہوتا تھا بلکہ انہیں لوٹنے اور جھوٹ کے ریکارڈ قائم کرنے والے ہمیشہ اکثریت میں ہوتے تھے اس لئے بے چارے پاکستانی عوام بے نوا ہی نظر آتے تھے۔ اس دفعہ وزیر داخلہ جن کی تقریریں لوگ سڑک پر کھڑے ہو کر سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس قدر سچائی کے ساتھ سچ بول گئے کہ سپرانداز سیاست سے یہ فقرہ ہضم نہ ہو سکا۔ 1958 کے بعد ہم نے اسمبلیوں کو’’ تماشا گاہ‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے، راتوں رات اپنے حلف کو توڑ کر پارٹیاں بدلنے والے اراکین راتوں رات صدر سکندر مرزا کی ری پبلکن پارٹی میں شامل ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ایوب خان کو مارشل لاء کا سہارا لینا پڑا اور پھر دوسری آئینی ترمیم اپنے حق میں منظور کرانے کے لیےانہوں نے قومی اسمبلی کے اراکین کو تماشا بنا کر رکھ دیا۔ یہ ترمیمات منظور کرانے کی کے لیےہمارے بزرگوں نے ہی اسمبلیوں کا سہارا لیا تھا پھر آج اس قدر غصہ لفظ تماشا پر کیوں ہے۔ اُس کے بعد پی پی پی کے چیئرمین بھی یہ تماشا لگاتے رہے اور جوڑ توڑ کا یہ سلسلہ ایک بڑے تماشے کی شکل میں جاری رہا۔ سیالکوٹ کے سلمان صاحب ممبر قومی اسمبلی کو اپنے ساتھ شامل رکھنے کے لیےکیا کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ سچائیاں اپنی جگہ موجود ہیں کہ چوہدری نثار علی خان جوشِ خطابت میں ہی سہی مگر یہ کڑوا سچ بول ہی گئے، اب بھوکی ننگی اس قوم کی امیر ترین اسمبلی کیوں بے چین ہے۔ انہوں نے یہ لفظ واپس نہ لے کر ایک بہت دلیرانہ اقدام کیا ہے۔ مشہور ادیب نسیم حجازی نے اپنی کتاب ’’سفید جزیرہ‘‘ میں پاکستانی پارلیمنٹرین کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ایک بہت بڑی سچائی ہے۔ ہمارے سیاستدان رہنمائوں کے انہی رویوں کی وجہ سے آج تک جمہوریت اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ ہمارے ایک اور ادیب نے ایک کتاب لکھی ہے پاکستان میں جمہوریت پر کیا گزری۔ا گر اُس کو بھی پڑھ لیا جائے تو اس لفظ کی سچائی پر ایمان لانا پڑے گا کہ پاکستان کو قائداعظم کہاں دیکھنا چاہتے تھے اور ان کی وفات کے بعد ہمارے سیاسی رہنمائوں نے اس ملک کے ساتھ اور عوام کے ساتھ کیسے کیسے جھوٹ بولے اور پھر کیسے کیسے ریفرنڈم کے ذریعے اعلیٰ ارفع جھوٹ بولے گئے کہ ایک بڑے رہنما پیر صاحب پگاڑا کا یہ فقرہ بہت مقبول ہوا کہ اس ریفرنڈم میں فرشتوں نے ووٹ ڈالے اب اور تماشا کسے کہتے ہیں۔ دیکھ لیجئے ۔سیاست ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سیاستدانوں کو اپنا چہرہ نظر نہیں آتا بلکہ وہ دوسروں کے چہرے دیکھتے ہیں۔ ابھی بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں، میں کافی عرصہ سے یہ الیکشن اور ان کی دھاندلیاں دیکھ رہا ہوں، میں نے ایک برطانوی صحافی سے کہا تھا کہ آپ کو ہماری جمہوریت تو نظر آتی ہے مگر اندرا گاندھی نے گزشتہ 17سال سے بھارت میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے کہئے کیا کہتے ہیں اگر جلد ہی کوئی معقول انتظامات نہ کئے گئے تو الیکشن بلدیات کے ایک تماشا بن جائیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میں امیدوار تھا اور پولنگ آفیسر نے میرا بھی ووٹ کاسٹ کرا دیا تھا۔ یہ بھی ایک تماشا تھا اور آئندہ بھی ہو گا، اسے بھی روکنا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ دھرنے کی سیاست ختم ہو اور عوام کے دکھوں کو دور کرنے کی سیاست شروع کی جائے۔ قوم بڑی بے بسی سے اپنے دکھوں کی سیاست کو دیکھ رہی ہے کہ ایک دوسرے کے گریبان کو ہاتھ ڈالنے والے ہمارے لئے کیا کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں چوہدری نثار کی خوبصورت تقریریں سیاق و سباق سے بھرے الفاظ عوام کے دلوں کی دھڑکن بن کر مہک رہے ہیں انہیں ڈٹ جانا چاہئے کہ اُن کا بولا ہوا لفظ قوم کی ترجمانی کرتا ہے۔ میری رہائش گاہ پر انہوں نے عوام سے یہ بات کہی بھی تھی کہ میں عوام کی زبان بولتا ہوں، ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ ہمارے لیڈر سچائی کی زبان بولیں اور قوم کہے کہ بول کہ اب لب آزاد ہیں تیرے۔ میرے حکمرانوں نے جمہوریت کے نام پر جو ڈرامے کئے ہیں اور اب جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے اس کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے بنگلہ دیش میں جو خونریزی ہو رہی ہے کیا بین الاقوامی طاقتوں کا کھیل نہیں ہے؟ اس کی وجہ صرف ہمارے سیاسی رہنمائوں کی کم فہمی نہیں ہے اب ہمارے اراکین قومی اسمبلی کی جو رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے کیا لکھا ہے اگر رہنما ہی سفید جھوٹ بول کر اداروں کو امتحان میں ڈالنے لگے ہیں تو پھر کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
تازہ ترین