• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ قصہ بڑا عجیب ہے ۔ آج کل سندھ میں جہاں بھی چند لوگ جمع ہوتے ہیں اور سیاست و حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ، وہاں یہ قصہ ضرور سنایا جاتا ہے ۔ یہ قصہ حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں ، اس حوالے سے کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن سچا یا جھوٹا قصہ یہ ہے کہ سندھ کے ایک سیاست دان کے گھر میں کرنسی نوٹوں کا انبار لگا ہوا تھا ، جسے آگ لگ گئی اور یہ سارے کرنسی نوٹ راکھ میں تبدیل ہوگئے ۔ یہ قصہ میں نے ایک نہیں ، بیسیوں جگہ پر سنا ہے ۔ ان لوگوں نے بھی یہ قصہ بیان کیا ہے ، جنہیں ہم صحافی ’’ معتبر ذرائع ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ قصہ خبر نہیں بن سکا ہے مگر سندھ میں یہ مثال ضرور بن گئی ہے کہ ’’ زیادہ پیسے جمع کرو گے تو انہیں آگ لگ جائے گی ۔ ‘‘ گذشتہ دنوں مقامی ہوٹل میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے بھی کہا کہ ’’ جو لوگ پاکستان کو لوٹ رہے ہیں ، ان کا سرمایہ کبھی پاکستانی معیشت میں واپس نہیں آتا ۔ وہ ڈالرز کی صورت میں یا تو بیرون ملک چلا جاتا ہے یا گھر میں پڑے ہوئے ڈالرز کو آگ لگ جاتی ہے ۔ ‘‘ حالانکہ اکثر ایسا نہیں ہوتا ہے کہ گھر میں پیسے پڑے ہوں اور انہیں آگ لگ جائے ۔ تاریخ میں بھی شاید ایسے اکا دکا واقعات ہوئے ہوں گے ۔ آخر کچھ تو ہوا ہو گا کہ لوگ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں نے اسے حقیقت تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ آگ کس سیاست دان کے گھر میں لگی اور جلنے والی رقم کتنی تھی ؟ اس حوالے سے بھی کوئی وثوق سے کچھ نہیں کہہ رہا ۔ بقول الطاف حسین حالی ’’ آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم ۔۔۔۔ سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم ۔ ‘‘ اگر یہ کسی دشمن کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے تو اس کا تدارک ہونا چاہیے ۔اس بات کا خیال رکھاجائے کہ سندھ کی اکثریتی آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے اورکسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ اس طرح کے قصے اور کہانیوں سے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے ۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہی سندھ میں فی کس آمدنی پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے اور 1999ء سے یہ فی کس آمدنی سالانہ 0.5فیصدکی شرح سے کم ہو رہی ہے ۔ سندھ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت بھی انتہائی ابتر ہے ۔ بنیادی سہولتوں سے محرومی کے حوالے سے بھی سندھ کے دیہی علاقے انڈیکس میں سرفہرست ہیں ۔ ایک این جی او نے گذشتہ سال زمینی حقائق کا مشاہدہ کرانے کے لیے صحافیوں کو ضلع شکار پور کا دورہ کرایااور ان کے ساتھ ایک سروے کا بھی انعقاد کیا تھا ۔کراچی ، سکھر اور شکار پور کے صحافی ہر مرحلے میں اس سروے میں شامل رہے ۔ اس حوالے سے پیر 2 ستمبر 2013ء کو ایک رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ، جس میں کہا گیا کہ سندھ پاکستان کا سب سے غریب اور فوڈ ان سکیورٹی (خوراک میں عدم تحفظ ) کا شکار صوبہ ہے ۔ اس صورت حال میں جب غریب لوگ بعض سیاست دانوں کے ظاہری ٹھاٹھ باٹھ دیکھتے ہیں تو انہیں اس طرح کے قصے کہانیوں پر یقین ہونے لگتا ہے ۔ کسی بھی محفل میں بیٹھتے ہی لوگ اس قصے کو چھیڑ دیتے ہیں اور تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ’’ اچھا بتاؤ ! اصل بات کیا ہے ؟ ‘‘ پھر اس کے بعد کئی قصے چھڑ جاتے ہیں ۔ باتوں باتوں میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ ایک انویسٹر کچھ اور سیاست دانوں کے اربوں روپے لے کر بھاگ گیا ہے ۔ لوگ یہ کہانیاں بھی بتانے لگتے ہیں کہ بعض شخصیات نے کس طرح پیسہ کمایا ، کس طرح نوکریاں بیچی گئیں ، کس طرح تبادلوں اور تقرریوں کے حوالے سے پیسے وصول کیے گئے ، سندھ میں ٹینڈر اسامیوں کی اصطلاح کیوں رائج ہوئی اورکھربوں روپے خرچ ہونے کے باوجودسندھ میں ترقی نظرکیوں نہیں آتی۔لوگ بیٹھتے ہیں اورایک قصے سے دوسراقصہ نکلتا جاتا ہے۔سرائیکی زبان کا ایک شعر ہے کہ ’’چلتارہے ہیرکا قصہ۔۔۔ جاگتی رہے ساری بستی‘‘ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسے قصے سن سن کر سیاسی کارکنوں میں بھی مایوسی پیداہورہی ہے کیونکہ یہ قصے کہانیاں سندھ کی ایک اہم سیاسی جماعت کے لوگوں سے ہی منسوب کی جارہی ہیں۔ان کارکنوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ مسلم لیگ کی طرح ان کی پارٹی میں بھی جاگیرداروں اور امراء کا اثرورسوخ بڑھ رہاہے۔اس قصے کے ساتھ ان کارکنوں کے قصے بھی سامنے آنے لگے ہیں،جنہوں نے جمہوری جدوجہدمیں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور انہیں کچھ نہیں ملاہے۔آج وہ خود اور ان کے اہل خانہ بے کسی اور غربت کی زندگی گزاررہے ہیں۔کچھ کہانیاں توایسی ہیں،جنہیں بیان نہیں کیاجاسکتا۔پاکستان میں دولت مند لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔ناجائز دولت کمانے کے بے شمار اسکینڈلز بھی لوگوں کے سامنے آئے ہیں۔لیکن سندھ کے لوگوں اور سیاسی کارکنوں نے ان پر اتنی توجہ نہیں دی ،جتنی کرنسی نوٹوں کے جلنے کے قصے پردی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ قصہ سچاہے یا جھوٹاہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے لوگ اپنی طینت میں نیک وصاف گو اور مزاج میں انتہائی درجے کے حساس ہیں۔برطانوی جنرل سر چارلس نیپئرنے بھی شاید یہ بات محسوس کرلی ہوگی اور1843میں سندھ کو فتح کرنے کے بعد انہوں نے لندن جو تار بھیجاتھا ،اس پریہ الفاظ تحریرتھے کہ’’ سندھ کو فتح کرکے مجھ سے گناہ سرزد ہوگیاہے‘‘ چارلس نیپئرکی بات بہرصورت ذہن نشین رہنی چاہیے۔
تازہ ترین