• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیا سال، نئی امیدیں، نئی توقعات، حکومت نے سال کو کامیابیوں کا سال قرار دیا ہے اور معروف اقلیتی رہنما جناب جے سالک نے اسے محبت کا سال کہا ہے۔ گزرے سال کو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں دیکھا ہے فوج اور عدلیہ کیلئے تبدیلی کا سال تھا، الیکشن کا اور شیروں کی حکومت کے آغاز کا جب کہ چند ایک،بِلّا پکڑے جانے کی اصطلاحیں متعارف کراتے رہے اور بعض دھرنوں میں بیٹھے رہے۔ہمارے لئے سال گزشتہ اس اعتبار سے بہت بھرپور گزرا کہ سارا سال کتابیں آتی رہیں بہت ساری پر ہم نے لکھا چند ایک رہ گئیں، ملک محبوب رسول قادری ہمارے ان قلم کار ساتھیوں میں سے ہیں جنہوں نے ہمیں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جوہر آباد اور لاہور سے ’’انوار رضا‘‘ کے بہت سارے خوبصورت اور ضخیم خصوصی نمبر بھجوائے جن میں مولود کعبہ نمبر، حضرت طارق سلطان پوری نمبر، جمعیت علمائے پاکستان کی سیاسی جدوجہد نمبر، ختم نبوت نمبر، مولانا شاہ احمد نورانی نمبر، برکات سیرت و کردار نمبر، عظمت ابرار نمبر، سفیر اسلام نمبر اور قائداعظم نمبر۔ ملک محبوب رسول قادری سارا سال سفر میں رہتے ہیں، پاکستان ،آزاد کشمیر شمالی علاقہ جات اور چند اسلامی ممالک اکثر ان کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرتے رہتے ہیں۔
خلاصہ قرآن ،یہ قرآن پاک کے30پاروں کے اہم مضامین کا اردو میں اجمالی بیان آسان ترین ترجمہ اور تفسیر ہے، میجر سید ذوالفقار کاظمی نے تحریر کیا ہے، آپ اسلام آباد میں ہوتے ہیں،شاعر ہیں ،محقق اور دفاعی تجزیہ کار بھی ان کی ایمان افروز کاوش ’’خلاصہ قرآن‘‘ کے حوالے سے دو شہادتیں بھی موصول ہوئی ہیں ایک جنوبی وزیرستان سے پرنس عمر دراز کی اور دوسری کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کے گھر میں نظر بند معروف سائنس دان ڈاکٹر محمد فاروق کی، ان دونوں کا کہنا ہے کہ وہ جب قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو اسے سمجھنے کیلئے بعد میں خلاصہ قرآن سے رہنمائی لیتے ہیں یوں ان پر قرآن کی ایک ایک حکمت آشکار ہو جاتی ہے۔
اسٹاپ پریس، اخبار نویسوں کیلئے نیا نام نہیں ہے لیکن اس اعتبار سے اس میں تجسس ہے کہ یہ معروف قلمکار افضل پرویز کی بھولی بسری یادوں کا مجموعہ ہے لیکن خیال رہے کہ یہ وہ افضل پرویز نہیں ہیں جو راولپنڈی جنگ میں ثقافتی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اس طرح لاہور سے جناب محمد متین خالد نے ’’ماما زندہ باد‘‘ نامی کتاب بھجوائی ہے جو جاوید چوہدری کی لکھی ہوئی ہے لیکن یہ وہ جاوید چوہدری نہیں ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ لاہور ہی سے ممتاز لکھاری جناب فرخ سہیل گوئندی نے چھ کتابیں بھیجی ہیں ۔
بات نئے سال سے شروع کی تھی۔نئے سال2014ء کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس سال وہی کیلنڈر چلے گا جو 1947ء میں تھا جو لوگ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں شامل اور جنہوں نے قیام پاکستان کے لمحات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ آج نہ صرف کیلنڈر ملا لیں بلکہ وہ یہ بات پوری آزادی کے ساتھ سوچتے ہوں گے کہ
وہی دن کی گردش وہی رات کی
بدلتی نہیں مشکل حالات کی
گزشتہ سال کی سب سے آخری اور اہم تقریب گڑھی خدا بخش میں بے نظیر شہید کی چھٹی برسی کی تھی جو27دسمبر کو منعقد ہوئی ، جس میں ایوان صدر کے سابق قیدی عالی مرتبت آصف زرداری نے اپنے ہم منصب جسے پورے اعزاز کے ساتھ انہوں نے خود ایوان صدر سے رخصت کیا تھا اب اسے بِلّا کہہ رہے ہیں اور شیر کو کہہ رہے ہیں کہ اسے بچ کہ نہ جانے دینا حالانکہ میاں نواز شریف نے نہیں فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے جہاں تک پرویز مشرف صاحب کو بِلّا کہنے کا تعلق ہے تو یہ پیپلز پارٹی کا کلچر ہے۔ مائنڈ کرنے کی ضرورت نہیں، ذوالفقارعلی بھٹو نے فور اسٹار جرنیل کو آلّو کہا تھا۔پیپلزپارٹی جو کبھی مزدوروں ،کسانوں اور محنت کشوں کی پارٹی ہوا کرتی تھی اب شہیدوں کی جماعت بن گئی ہے۔ اصل جیالا حیرت کی تصویر بن کے رہ گیا ہے،خون دینے والے نظر انداز کر دیئے گئے اور چُوریاں کھانے والے ہر کسی کو للکارتے پھرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا ایک جیالا اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کابل سے تخریب کاری کی تربیت لے کر آیا تھا اور لاہور میں اپنے ٹارگٹ کی تلاش میں جا رہا تھا کہ راولپنڈی میں اسے میں نے قابو کیا، مقدمہ چلا اور وہ پھانسی چڑھ گیا لیکن جب دسمبر1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو وہ لاہور اس کے گھر گئیں پاکستان کیلئے اس کی خدمات کو سراہااوراسےشہید جمہوریت قرار دیا۔
28اور29دسمبر 1981ء بروز پیر اور منگل کی درمیانی رات کا واقعہ ہے، اس رات رشید قمر میرے پاس ٹھہرا ہوا تھا جو ان دنوں ایل ایل بی کا طالب تھا اور آج کل اسلام آباد سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ہے، رات گئے گولیوں کی آواز سن کر میں گھر سے باہر نکلا تو سڑک پر پولیس کانسٹیبل یوسف کی لاش پڑی تھی تھوڑے فاصلے پر ہیڈ کانسٹیبل شوکت زخمی حالت میں پڑا تھا اتنے میں سامنے والی گلی سے ہمارے ایک محلے دار ایوب صدیقی کے گھر سے فائرنگ کی آواز آئی میں بھاگ کر اس گھر پہنچا تو ایوب صدیقی زخمی حالت میں صوفے پر گرے ہوئے تھے جو بعد میں فوت ہو گئے قریب فرش پر ان کا بیٹا اصلوب صدیقی زخمی حالت میں پڑا تھا اسی اثناء میں اندر سے صدیقی صاحب کے بڑے بیٹے نے دیکھا تو مجھے آواز دی، مرزا صاحب اسے پکڑیں اس کی جیب میں بم ہیں ’’اس نے تخریب کار کو قابو کیا ہوا تھا ،آگے بڑھ کر میں نے اس کی جیبوں میں ہاتھ مارا تو ’’ہینڈ گرنیڈ‘‘ تھے اسی عرصے میں ہمارے ایک اور محلے دار یونس چوہدری بھی پہنچ گئے ہم اس تخریب کار کو قابو کر کے باہر سڑک تک لائے۔ تلاشی لی تو اس کی جیکٹ سے دو گرنیڈ 29گولیاں ، ایک پستول اور دو میگزین برآمد ہوئے اسی اثناء میں ایس ایس پی راولپنڈی سکندر شاہین پہنچ گئے انہوں نے وائرلیس پر ڈی آئی جی پولیس محمد رضا ضیاء کو اطلاع دی کہ سر میں گشت پر تھا ایک دہشت گرد پکڑا گیا ہے دو بھاگ گئے ہیں ان کا تعاقب جاری ہے۔ جب پولیس مرنے والے اور زخمیوں کو اٹھا کر چلی گئی تو صبح کی اذانیں ہو چکی تھیں، گھر کے باہراسٹریٹ لائٹس سے دن کا گمان ہو رہا تھا میں ابھی گھر کی طرف مڑ ہی رہا تھا کہ ہمارے سامنے والے گھر سے بریگیڈیر شوکت خورشید چادر لپیٹے باہر آئے اور کہا کہ ’’جبار یار میں تو تمہیں بہت سمجھدار نوجوان سمجھتا تھا، میں تمہارے جذبے کی داد دیتا ہوں لیکن احتیاط بہرطور ضروری ہے‘‘۔ بریگیڈیر خورشید ان دنوں گھوڑا گلی کے لارنس کالج کے پرنسپل تھے وہ ہمارے محلے میں ہی پلے بڑھے اور فوج میں چلے گئے ان کی انکساری اور احترام آدمیت مثالی تھا جن دنوں وہ GHQ میں ہوتے تھے ایک دن اسٹاف کار سے آ کر اترے تو میری والدہ صاحبہ کو باہر کھڑا دیکھ کر گھر جانے کے بجائے ہمارے دروازے کی طرف آ کر کہا امی جی خیریت ہے ،دکان سے کچھ منگوانا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں گلی کے کسی بچے کو دیکھ رہی ہوں سبزی منگوانی تھی، اس پر شوکت خورشید جو وردی میں تھے امّی جی سے کپڑے کا تھیلا لے کر یہ کہہ کر مارکیٹ کی طرف چلے گئے کہ ’’میں اس گلی کا بچہ نہیں ہوں‘‘۔ بہرطور رات گئی بات گئی، اگلے روز اس دہشت گرد کو راولپنڈی سمری ملٹری کورٹ سے چودہ روز کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا۔ پنجاب کے اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس لئیق احمد خان نے ملزم سے تفتیش کیلئے ڈی ایس پی راجہ نوازش علی، انسپکٹر عطاء اللہ نیازی اور انسپکٹر ارشد حسین کو مقرر کیا، معمول کی کارروائی کے بعد سمری ملٹری کورٹ نے اسے موت کی سزا دی ان دنوں راولپنڈی کے کمشنر افضل کہوٹ ہوا کرتے تھے،مجرم پھانسی پہ جھول گیا اور متحرمہ بے نظیر بھٹو نے اسے شہید جمہوریت کہا اس دہشت گرد کا نام ادریس طوطی تھا!
تازہ ترین