• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سی باتوں کا انبار لگ گیا ہے، موضوعات کا ڈھیر لگا ہے سمجھ نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں۔ بہتر ہے کہ ایک بہادر آدمی سے بات کا آغاز کیا جائے۔ ملکی منظر نامہ پر اس وقت نادرا کے چیئرمین طارق ملک سے زیادہ بہادر کوئی نہیں۔ حکومتی عتاب و عذاب کا شکار طارق ملک صحیح معنوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی اورامریکہ کی ہارورڈ سے تعلیم پانے والا شخص اتنا دلیر بلکہ دیدہ دلیر کیسے ہوسکتا ہے کہ حکومت کے سامنے بھی ڈٹ جائے۔ میں باقاعدہ حیران تھالیکن جونہی مجھے علم ہوا کہ طارق ملک فتح محمد ملک جیسے قابل فخر دانش ور کا بیٹا ہے تو بات سمجھ میں آگئی۔ حیرت سکون میں تبدیل ہوگئی کہ ایسے باپ کے بیٹے کو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ محاورے سے غلط نہیں ہوسکتے اور ہم بچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں۔ ’’ماں پر بیٹی پتا پر گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘ یعنی بیٹی ماں کا اور بیٹا اپنے باپ کا پرتو ہوتا ہے۔ طارق ملک کن ’’جرائم‘‘ کی سزا بھگت رہا ہے اور حکومت اس سے اتنی ڈری ہوئی کیوں ہے؟ اس کی تفصیل تو آپ مختلف تحریروں، کالموں، خبروں میں پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ میں تو یہ چند سطریں صرف اظہار یک جہتی کیلئے گھسیٹ رہا ہوں کہ باقی باضمیر اہل قلم کی طرح یہ خاکسار بھی طارق ملک کے ساتھ ہے۔ شکر ہے کہ ہمارے درمیان اب بھی ایسے طارق موجود ہیں جو کشتیاں جلا کر میدان میں اترتے ہیں اور سودوزیاں سے ماورا رہتے ہیں۔
اور اب چلتے ہیں ’’انتخابات‘‘ کی طرف ...... گھبرائے نہیں کہ میں کسی وسط مدتی انتخابات کی بات نہیں کررہا جن سے کچھ لوگوں کو خوف ہے کہ نادرا والے طارق ملک کے عدم و تعاون سے ان کی نوبت بھی آسکتی ہے ....... نہیں، میں جس ’’انتخابات‘‘ کی بات کررہا ہوں وہ 208 صفحات پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب ہے۔ یہ کتاب جسے کارنامہ کہیں تو بہتر ہوگا کا سہرا حضرت انور قدوائی کے سر بندھتا ہے اور بطور شہ بالا ہمارے ایک بھگوڑے کالم نگار محمد ساجد خان بھی ساتھ ہیں جنہوں نے قدوائی صاحب کے اس کارنامہ میں ان کی بھرپور معاونت کی ہے۔ فرخ سہیل گوئندی اپنے دیباچہ نما میں لکھتے ہیں۔
سید انور قدوائی کی زیر نظر کتاب ’’انتخابات ....... قصر جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘ ایک ایسے موضوع پر ہے جس کا تعلق براہ راست جمہور سے ہے اور جمہور کی آزادی کی بنیاد انتخابات ہوتے ہیںجو اس کتاب کا موضوع ہے‘‘۔
سیاست کے ہر ذہین رسمی و غیر رسمی طالب علم کیلئے یہ کتاب محاورتاً بائیبل سے کم نہیں کہ یہ سید صاحب کی طویل صحافتی زندگی کا عطر ہے۔
دو مزید کتابیں دراصل شعری مجموعے ہیں۔ ایک کا نام ہے ’’یہ مرے خواب ہیں بکھرتے ہوئے‘‘۔ یہ محترمہ عینی راز کی شاعری ہے جسے اعتبار ساجد شرارت سے ’’گجومتہ‘‘ کہہ کر چھیڑتا ہے۔
خدا کا شکر کوئی امتحاں نہیں باقی
کوئی ندیم کوئی مہرباں نہیں باقی

تیرے دریا میں کچھ کمی سی ہے
اس لیے مجھ میں تشنگی سی ہے

یہ پرندے نہیں ہیں اڑتے ہوئے
یہ مرے خواب ہیں بکھرتے ہوئے

سہمے سہمے ہمسفر ہیں کس لیے
بے خبر یہ راہبر ہیں کس لیے
عینی کی باقی شاعری کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں تو دوسری طرف ’’تیشۂ سخن‘‘ والے پروفیسر فرخ محمود بھی صلیب سخن پر کچھ اس طرح موجود ہیں کہ مجھے ان کا مجموعہ پڑھتے ہوئے اپنا ہی ایک بھولا بسرا شعر یاد آگیا؎
میں ایک مائع ہوں تخلیق کے مراحل میں
نجانے کون سے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں

اور آخر پہ چند شعر فرخ محمود کے؎
جس جگہ بند ہوں سوال کے در
پھر کھلیں گے وہاں زوال کے در

اپنا مقصد بیان کیسے کریں
ہم زمیں آسمان کیسے کریں

اترا ہے کوئی دل پہ جو الہام کی طرح
دنیا پہ کھل نہ جائے وہ پیغام کی طرح
اور چلتے چلے یہ اعتراف کہ شاعری کیلئے جتنےظرف کی ضرورت ہوتی ہے مجھے میسر نہ تھا۔ بہت من مارنا پڑتا ہے، بڑی تپسیا درکار ہے اور عینی راز سے فرخ تک جو جتنا گڑ ڈالے گا اتنا ہی ’’میٹھا‘‘ ہوگا کہ شعر کا یہ معیار مدتوں کی آبلہ پائی کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ وطن اور اہل وطن کا ایسا عکس پیش کرنے کیلئے اتنا ہی سفر درکار ہے جتنا تپتی ریت پرننگے پائوں خالد شریف نے کیا۔
بس اک ہم ہیں کہ مٹی سے محبت کررہے ہیں
پرندے بھی یہاں سے اب تو ہجرت کررہے ہیں
تازہ ترین