• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے لہذا عدالت میں زیر سماعت کسی مقدمے پر کوئی تبصرہ قانون کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جو ڈرامہ ہوا تھا ، وہ بھی بہت دلچسپ تھا لیکن اب جو کچھ شروع ہوا ہے ، اسے فی الوقت ڈرامہ تو نہیں کہا جا سکتا مگر اسے جو بھی نام دیا جائے ، یہ 12 اکتوبر کے ڈرامے سے زیادہ سنسنی خیز ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا ڈراپ سین کیا ہوتا ہے ۔ 12 اکتوبر کا ڈرامہ چند گھنٹوں کا تھا اور بھرپور تھا ۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کا دورانیہ جس قدر بڑھتا جائے گا ، اس قدر سنسنی خیزی میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
گزشتہ جمعرات کو سابق صدر سخت سکیورٹی میں عدالت کی طرف آرہے تھے لیکن ان کے قافلے کو اچانک راستہ بدلنا پڑا اور ڈرائیورز کو حکم دیا گیا کہ وہ گاڑیوں کا رخ عدالت کے بجائے اسپتال کی طرف موڑ لیں ۔ سکیورٹی اہلکار اس ’’یو ٹرن ‘‘ پر سخت حیران ہو گئے ۔ بعد میں بتایا گیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا اور ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی ۔ لوگ ٹی وی چینلز کھول کر بیٹھے ہوئے تھے اور یہ دیکھنے کے لیے بے چین تھے کہ پرویز مشرف کس طرح عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور ان کے چہرے کے تاثرات کیا ہوں گے ۔ ان کا یہ ڈائیلاگ کہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ‘‘ بہت مشہور ہوا تھا ۔ اس ڈائیلاگ کی شہرت پرویز مشرف کی اپنی شہرت سے کہیں زیادہ ہے۔ لوگ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عدالت میں پیشی کے بعد سابق جرنیل اور کمانڈو کا لہجہ کیا ہوگا ۔ پاکستان کے مظلوم عوام کو یہ پتہ ہے کہ ان کے غم و غصہ کا ازالہ اس ملک میںکبھی نہیں ہو گا ۔ ان کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ ایک سابق آمر کا غرور ٹوٹ جائے لیکن وہ یہ منظر دیکھنے سے محروم رہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس منظر کے بجائے زیادہ دلچسپ اور ڈرامائی صورت حال پیدا ہو گئی ۔ لوگ جو منظر دیکھنا چاہتے تھے ، وہ شاید ایک منٹ میں ختم ہوجاتا لیکن اس ڈرامائی صورت حال نے پورا دن لوگوں کو مصروف رکھا اور اس کی وجہ سے 12 اکتوبر والے ڈرامے کا حساب برابر ہو گیا ۔ ٹی وی چینلز سارا دن یہ خبریں چلاتے رہے کہ عدالت میں پیشی کے لیے آتے ہوئے سابق صدر کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ اس خبر پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔ 12 اکتوبر کو ایک منتخب وزیراعظم کو پرائم منسٹر ہاؤس سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا ۔ منتخب وزیر اعظم کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں زندہ بھی چھوڑا جائے گا یا نہیں ۔ اس کے باوجود ان کی طبیعت خراب ہونے کی کوئی خبر نہیں آئی تھی ۔ ایک سابق کمانڈو کی عدالت میں آتے ہوئے طبیعت خراب ہونے کی خبر 12 اکتوبر سے بڑی خبر تھی ۔
اب آگے کیا ہوتا ہے ؟ لوگ اگلی قسط کا شدت سے انتظار کررہے ہیں ۔ اسپتال میں داخلے کے بعد یہ قیاس آرائیاں بھی شروع ہوگئی تھیں کہ پرویز مشرف بیرون ملک جاسکتے ہیں ۔ یہ تصور بھی دلچسپی سے کم نہیں ہے کہ پرویز مشرف بیرون ملک چلے جائیں اور یہ امکان بھی سنسنی خیز ہے کہ وہ پاکستان میں رہیں ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ کراچی میں اس بات پر بھی سٹہ کھیلا جارہا ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر جانے دیا جائے گا یا نہیں ؟ صورت حال کسی کرکٹ میچ کے آخری فیصلہ کن اوور جیسی ہو گئی ہے ۔ لوگوں میں اس حوالے سے زبردست مباحثہ بھی شروع ہو گیا ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا جبکہ اس کے برعکس دیگر لوگوں کا مؤقف یہ ہے کہ انہیں پاکستان سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا ۔ جن لوگوں کو پرویز مشرف کے باہر چلے جانے کی قوی امید ہے ، ان کے دلائل بڑے مضبوط ہیں ۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف سابق آرمی چیف ہیں ۔ وہ سویلین نہیں ہیں ۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں فوجی جرنیلوں کو سزا نہیں ہوتی ہے ۔ جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کا ایجنڈا عالمی طاقتیں اپنے سامراجی مفادات کے تحت طے کرتی ہیں اور یہ فیصلہ صرف ایک شخص اکیلے نہیں کرتا ۔ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ جس طرح میاں نواز شریف رات کی تاریکی میں اٹک جیل سے سیدھے سعودی عرب کے شاہی محل میں منتقل ہوگئے تھے ، اسی طرح پرویز مشرف کا بھی اس وقت پتہ چلے گا ، جب وہ بیرون ملک جا چکے ہوں گے ۔ پاکستان جیسے ملک پر بیرونی قوتیں آسانی سے اثر انداز ہوسکتی ہیں کیونکہ یہاں کوئی قانون یا نظام نہیں ہے ۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر بھی اس وقت کی عدلیہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور نہ ہی عدلیہ کی طرف سے کوئی از خود کارروائی کی گئی تھی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک چلے جانے سے بہت لوگ اور ادارے آزمائشوں سے بچ جائیں گے ۔ اس کے برعکس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف بیرون ملک نہیں جا سکتے ، ان کی باتوں میں بھی کچھ وزن ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یا تو حکومت پرویز مشرف کے خلاف سنگین بغاوت کا مقدمہ درج ہی نہ کراتی اور اس سے پہلے ہی معاملات طے کرلئے جاتے اور پرویز مشرف کو سمجھا بجھا کر باہر بھیج دیا جاتا ۔ اب جبکہ مقدمے کی کارروائی شروع ہوچکی ہے ، اسے درمیان میں چھوڑنے سے کئی اداروں اور شخصیات کا کردار سوالیہ نشان بن جائے گا اور سب سے زیادہ نقصان یہ ہو گا کہ لوگوں کا اس بات پر یقین ختم ہو جائے گا کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہو رہے ہیں، آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہورہی ہے اور عدالتیں آزادی سے کام کررہی ہیں ۔ اس دلیل کی بنیاد پر ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ پرویز مشرف کو نہ صرف بیرون ملک نہیں جانے دیا جائے گا بلکہ انہیں اس مقدمے سے فوری طور پر بری بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بہرحال آئندہ جو کچھ بھی ہو گا، وہ بہت دلچسپ اور سنسنی خیز ہو گا ۔
تازہ ترین