• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر نواز شریف اُن اہم امور کا جائزہ لیں، جو 2014 میں خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں تو اُنہیں پانچ معاملات، جیسا کہ خارجہ پالیسی، دہشت گردی، معیشت، سول ملٹری تعلقات اور ایگزیکٹو اور عدلیہ کے روابط پر نظر رکھنا ہوگی۔ بظاہرتو وہ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں پر امید دکھائی دیتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے تجربہ کار اور اپنے قابل ِ اعتماد افراد کو ریاستی امور کی اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ خارجہ پالیسی کی نگرانی دو قابل افراد، سرتاج عزیز ، جو سابقہ وزیر ِ خارجہ ہیں اور طارق فاطمی، جو سابقہ سفیر ہیں، کے سپرد ہے۔اسحٰق ڈار جیسے تجربہ کار ماہرِ معاشیات کے ہاتھ میں مالی امور کا قلمدان ہے۔چوہدری نثارعلی خان ، جنہیں ’’نائب وزیر ِ اعظم‘‘ کے فرائض ادا کر کے دلی مسرت ہوتی ہے، کی عقابی نگاہیں قومی سلامتی ، دہشت گردی اور امن و امان کی صورت پر مرکوز ہیں۔سابق وزیر ِ قانون زاہد حامد اور وکلا تحریک کے روح ِ رواں اٹارنی جنرل منیر اے ملک کے پاس قانونی امور کا شعبہ ہے، جبکہ دونوں شریف برادران ، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مارے جانے والے دو شبخونوں کا تلخ تجربہ رکھتے ہیں، دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس تمام ’’سب اچھا ہے‘‘ کے باوجود ٹائم بم کی ٹک ٹک سنائی دے رہی ہے اور اگر اسے جلدی ناکارہ بنانے کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو دھماکہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بھارت کی بجائے افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کے لیے ایک اہم چیلنج کے طور پر ابھرا ہے۔اب یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ جب اس سال امریکی افواج افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کریں گی تو طالبان کی واپسی یقینی ہے، خاص طور پر اُس صورت میں جب اگلے صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اس کے نتیجے میں طالبان مخالف قوتوں کی کشمکش شروع ہوگئی تو پھر طالبان مزید تقویت پاجائیں گے اور افغان نیشنل آرمی بہت دیر تک ان جنگجوئوں کے سامنے مزاحمت نہیںکرپائے گی۔چنانچہ افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی تمازت پاکستان میں بھی محسوس کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان کے سرحدی صوبوں میںآ جائیںگے۔وہ صورت ِ حال پاکستانی طالبان کے لئے بھی ساز گار ہوگی ۔ وہ القاعدہ اور افغان طالبان کے ساتھ مل کر اسٹریٹجک گہرائی قائم کر لیںگے۔ اُس وقت ان انتہا پسند قوتوں سے نمٹنا کم از کم پاکستان کے لئے ناممکن ہو جائے گا۔
یہ وقت ہے جب کچھ قابل ِ عمل اہم فیصلے، جو نیم دلی سے نہ کیے جائیں بلکہ ان کی کامیابی کا امکان ہو، کیے جانے کی ضرورت ہے ۔ اگر تحریک ِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں تو پھر افغانستان، پاکستان اور طالبان سہ فریقی وفد تشکیل دیں جو طالبان جنگجوئوں کو غیر مسلح کرتے ہوئے اُن کو پاکستان اور افغانستان کے سماجی دھارے میں عام شہری بن کر رہنے کی تلقین کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ پھر اپنی ریاستوں کے خلاف مسلح کاروائیاں نہیں کریںگے۔ دوسرا آپشن ہے کہ یہ دونوں ملک مل کر ان انتہا پسندوں کو پوری ریاستی قوت سے کچل دیں ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر طالبان کو وقت مل جائے گا کہ وہ امریکی انخلا کے بعد اشتراک کرتے ہوئے دونوں ممالک کو دہشت زدہ کرتے ہوئے اپنی بات منوانے کی پالیسی جاری رکھیں۔
معاشی میدان میں چیلنج یہ ہے کہ مہنگائی، توانائی کے بحران اور بیروزگاری پر قابوپایا جائے۔ یہ وہ سو سر والے ناگ ہیں ، جن کا ایک سرقلم کریں تو دوسرے آن موجود ہوتے ہیں۔ ان سنگین ترین مسائل سے نمٹنے کے لئے حکومت کے اقدامات کمزور اور وقتی ہیں۔ اسٹیٹ بنک سے قرض اور غیرملکی اداروںسے امدادلے کر پبلک سیکٹر میں انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے یا توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے زیر ِ گردشی قرضہ جات کی ادائیگی کرنے سے صرف مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو کوئلے پر منتقل کرنے اور ایل این جی (مائع قدرتی گیس) کو درآمد کرکے صارفین تک پہنچانے میں بہت وقت لگے گا... اور پاکستان میں موسم ِ سرما بہت مختصر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس موسم ِگرما میں ناقابل ِ بیان لوڈ شیڈنگ ہوگی ۔ اسی طرح نوجوانوں کے لئے شروع کی جانے والی قرضہ اسکیم کی کامیابی مشکوک ہے کیونکہ پرائیویٹ سیکٹر میں صنعتوںکے لئے کی جانے والی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، چنانچہ وہ نوجوان پیسے لے کر بھی بے روز گار ہی رہیں گے۔ چنانچہ بے روزگاری، جسے ایک ٹائم بم قراردیا جاسکتا ہے، کے خاتمے کے لئے حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیںہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں جو انارکی پھیلنے والی، اس کا حکومت تصور بھی نہیںکرسکتی۔
حکومت کے لئے یہ بھی ایک آزمائش ہے کہ وہ عدلیہ اور دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر کس طرح چلتی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی روانگی کے بعد بھی جج حضرات ایگزیکٹو کی اتھارٹی کے لئے چیلنج رہیں گے اوراس سے حکومت کی فعالیت جام ہونے کا تاثر ابھرے گا،تاہم حکومت کے کسی اقدام سے ایسا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ یا اس سے باہر کوئی ایسی پالیسی بنارہی ہے جس سے ان مسائل کا تدارک ہو سکے۔
گزشتہ دنوں فوج کی اعلیٰ قیادت کی تبدیلی ، جس کے نتیجے میں ایک پیشہ ور سپاہی کو غیر سیاسی بنیادوں پر آرمی چیف بنایاگیا ہے، سے امید پیدا ہوچلی تھی کہ حکومت اور دفاعی ادارے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیںگے لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کے ایک متنازعہ مقدمے میں گھسیٹ کر فوج کی غیر جانبداری کے لئے ایک غیر ضروری چیلنج پیداکردیا گیاہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کو موقع دے دیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس حکومت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے میدان میں آ جائے۔ اپنے سیاسی حریفوں ، جن کو عوام نے انتخابات میں مسترد کردیا تھا، کو اس طرح سیاسی زندگی عطاکرناموجودہ حکومت کا ایک اہم ’’کارنامہ ‘‘ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوج اپنے سابقہ چیف کے خلاف ہونے والی اس کارروائی ، جس کے نتیجے میں کچھ ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران پر زد پڑ سکتی ہے، پر بے چین ہے۔ اس وقت عوامی حلقوں، خاص طور پر جب وہ اُن کے دور میں روپے کا استحکام یاد کرتے ہیں، کی طرف سے بھی مشرف کو سزا دینے کا مطالبہ نہیں آرہا ہے۔ چنانچہ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے جیسے یہ مقدمہ آگے بڑھے گا ،مشرف کی حمایت میں اضافہ ہوگا اور بہت سے گروہ ان کے لئے میدان میں موجود ہوں گے۔ اس کیس نے عدلیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ وہ آرٹیکل 6 کے تحت صرف ایک شخص کے خلاف کارروائی کررہی ہے جبکہ اس کے دیگر معاونین، جن میں اُس وقت کے اعلیٰ فوجی حکام او ر پھران کے اقدامات کی توثیق کرنے والے جج حضرات بھی ہیں،سے کوئی باز پرس نہیں ہورہی۔ شریف برادران کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دفاعی اور خفیہ ادارے کسی بھی وقت ملکی صورت ِ حال برہم کرکے اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے مسائل پیدا کرکے حکومت کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزررہا ہے اور یکے بعد دیگرے بہت سے بحران سر اٹھارہے ہیں ، چنانچہ یہ الزامات او ر محاذآرائی کا وقت نہیںہے۔ اس وقت عوام چاہتے ہیں کہ انہیں مستقبل کے حوالے سے کوئی اچھی خبر ملے تاکہ وہ مایوسی کے اندھیروں سے نکلیں۔
تازہ ترین