• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ روز بارڈر مینجمنٹ پر ہونے والی بات چیت میں کوئی ٹھوس پیش رفت تو نہ ہوسکی لیکن دونوں فریقوں نے اپنا یہ عزم ضرور دہرایا کہ باہمی رابطے کو جاری رکھیں گے اس پس منظر میں توقع کی جارہی ہے کہ اسی ہفتے تاشقند میںشنگھائی سربراہی تعاون کانفرنس کے اطراف میں پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام کے درمیان اس سلسلے میں مزید گفتگو ہوگی۔ ڈیورنڈ لائن دونوں کے مابین صدیوں پرانی مسلمہ سرحد ہے لیکن افغانستان نے اسے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا پہلے تو یہ معاملہ چلتا رہا ہے لیکن نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں افغانستان میں طالبان کے متعدد دھڑوں کی جانب سے افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد دہشت گردی کے انتہائی خوفناک منفی اثرات پاکستان پر پڑنے شروع ہوئے تو پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کو مجبوراً قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب شروع کر کے پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے ایک طویل جنگ کرنا پڑی جو اب اپنے آخری مرحلہ میں ہے اس دوران پشاور میں آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کی تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا کہ یہ دہشت گرد طورخم بارڈر کو پار کر کے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اس کے علاوہ وہ بھی ملک کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچ چکا ہےکہ دہشت گردوں کی تاریں افغانستان ہی سے ہلائی جاتی ہیں ان حالات میں پاکستان کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ طورخم بارڈر پر آمدورفت کو کسی ضابطے کا پابند بنانے کے لئے کوئی بھی اقدام کرے۔ اس پر افغان حکومت کو کوئی اعتراض نہیںہونا چاہئے کیونکہ اصولی طور پر وہ بھی بارڈر مینجمنٹ پر اتفاق کرتی ہے اس تنازع کو خواہ مخواہ بڑھانا پاکستان کے مفاد میں ہے نہ افغانستان کے حق میں، اس لئے اس سلسلے میں جتنی جلدی مفاہمت کا کوئی راستہ نکال لیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
تازہ ترین