• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو بھی اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے ، کولیسٹرول غیر صحت مندانہ لیول تک بلند، شریانیں کثافتوں کی وجہ سے بند ، دھڑکن غیر متوازن ،تاہم پاکستان کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ محترم وزیر ِاعظم تو ہیرلے اسٹریٹ کلینک میں سرجری کرانے کی استطاعت رکھتے ہیںلیکن پاکستان کو وہاں کون لے جائے گا؟
ہم دہشت گردی سے کم و بیش نمٹ چکے ، گو مکمل صفائی ابھی باقی ، لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ، ہم نے تیس برسوں تک انتہا پسندی کے خارزاروں کی خوب آبیاری کی ۔اس کی جڑوں کو اکھاڑپھینکنے میں اب وقت تو لگے گا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ فوج نے ایئرفورس کے موثر بیک اپ کے ساتھ دہشت گرددستوں کے محفوظ قلعے تباہ کردئیے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے قوم کا اعتماد بحال اور اچھے مستقبل کی امیدپیدا ہونی چاہئے تھی، لیکن اس کامیابی کے باوجود پاکستان ایک نیم جاں مریض کی طرح کیوں دکھائی دیتا ہے ؟ بالکل جس طرح عثمانی خلافت کے دور میں ترکی کو ’’یورپ کا مرد ِ بیمار‘‘ کہا جاتا تھا۔ دہشت گردی پر کاری ضرب لگانے کے بعد ہمارے سامنے منزل واضح ہونی چاہئے تھی، مقصد کے نمایاں خدوخال ابھر کر سامنے آنے چاہئے تھے، لیکن ابھی تک پاکستان کشتی ٔ بے بادباں کی طرح بے سمت کیوں ہے؟یہ اپنی منزل کی جانب عازم ِسفر ہوتا کیوں دکھائی نہیں دیتا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ عرشے پر موجود پائلٹوں کو کچھ اپنے مسائل نے گھیر ا ہوا ہے ۔ اُن کی دوربین کا رخ متضاد منازل کی سمت ، مختلف مناظر دیکھ رہا ہے۔ سویلین پائلٹوں کو انچارج ہونا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں ہیں۔اس کاتعلق وزیر ِاعظم کی ’’موجودہ غیر موجودگی‘‘ سے نہیں ہے امور ِ حکومت ہیرلے اسٹریٹ یا مے فیئر فلیٹس ، جہاں وزیر ِاعظم اور ان کے اہل ِخانہ مقیم ہیں، سے چلائے جارہے ہیں۔ اس سے حکومت ، کم از کم پاکستان کا اچھا تاثر نہیں جا رہا۔ لندن کے پاکستانی مقیم بتادیں کہ کیا جراحت ِ قلب کی سہولت پاکستان میں نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیوں؟جب وزیر ِاعظم واپس آئیں گے ، اور امید کی جانی چاہئے کہ اُن کی واپسی جلد ہوگی، تو ایسے سوالات دم توڑ جائیں گے ، قنوطیت کا غبار بیٹھ جائے گا، وزرا اور مشیر لندن جانے والے طیاروں کی بجائے اپنے دفاتر میں دکھائی دیں گے، پریشانی اور تشویش کے چھائے ہوئے بادل چھٹ جائیں گے۔ چنانچہ فکر کس بات کی ہے ؟ہوا میں نامعلوم خدشے کا ارتعاش کیوں ، نیز یہ احساس گھبراہٹ میں کیوں بدل رہا ہے؟یہ فکر کیوں دل کو گھیرے ہوئے ہے کہ ایک مرتبہ جب ماہ ِرمضان گزر جائے گا، عید کی تقریبات تمام ہوں گی تو پھر سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگے گا؟
بظاہر سکون اور خاموشی کے باوجود لاحق تشویش کی وجہ دو حل طلب مسائل ہیںجو حکمران جماعت کی پوری کوشش کے باوجود تحلیل ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔ ان میں سے ایک پاناما لیکس ہیں ، اور دوسرا ماڈل ٹائون کیس۔ پاناما لیکس انکوائری کے لئے فی الحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی تصفیہ نہیں ہوا ہے ، اور شواہد بتاتے ہیں کہ یہ صورت ِحال کسی تصفیے کی طرف نہیں بڑھے گی۔ اپوزیشن جماعتیں وزیر ِاعظم پر فوکس کئے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کے نام پر سمندر پارکمپنیاں اور بیرونی ممالک میں مہنگی جائیداد ہیں۔ حکومتی جماعت کا کہنا ہے کہ جو بھی ہوجائے ، تحقیقات میں وزیر ِاعظم کا نام نہیں آنا چاہئے۔ اس طرح ماڈل ٹائون فائرنگ کیس بھی حکمران جماعت کے سینے پر پڑے ہوئے ایک بھاری پتھر کی طرح ہے جو سرکنے کا نام نہیں لے رہا۔ چودہ افراد کا پولیس فائرنگ سے ہلاک ہوجانا افراتفر ی کی شکار کسی ریاست میں بھی معمولی واقعہ نہیںہوتا۔
ہم نہیں جانتے کہ کیا علامہ طاہرالقادری کی جیب میں کینیڈا واپسی کا ٹکٹ موجود ہے یا نہیں، اور پھر ان جیسے سیماب صفت شخص کے بارے میں پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔لیکن اگر اُنھوں نے عید کے بعد دیگر معاملات سے نظریں ہٹا تے ، اورحکومت کے فوری طور پر گرنے کی احمقانہ ڈیڈلائنز دینے سے اجتناب کرتے ہوئے صرف ماڈل ٹائون کیس پر پوری توجہ مرکوز کر لی تو حکمران جماعت کے لئے صورت ِحال کافی سنگین ہوجائے گی۔ اگر پاناما لیکس اورماڈل ٹائون کیس کویکجا کردیا جائے ،بشرطیکہ محترم ڈاکٹر صاحب کینیڈا کی فلائٹ نہ پکڑلیںاور عمران خان بھی بیان بازی کے منہ زور گھوڑوں کولگام دیں تو حکمران جماعت، بلکہ ملک کے لئے بھی مشکل صورت ِحال پیدا ہوسکتی ہے ۔ تاہم اس وقت پاکستان کسی اندرونی افراتفری کا متحمل نہیںہوسکتاکیونکہ بیرونی محاذ گرم ہورہے ہیں۔ پریشانی کی مزید بات یہ ہے کہ اس مرتبہ میدان ِ جنگ اسلام آباد کی بجائے لاہور ہوگا۔ اگر صورت ِحال بگڑ گئی، جیسا کہ مظاہرین کے مارچ کا رخ جاتی امرا کی طرف ہوگیا توامن وامان کنٹرول کرنے کی تمام تر ذمہ داری پنجاب پولیس کے کندھوں پر ہوگی۔لیکن پنجاب پولیس پہلے ہی ماڈل ٹائون فائرنگ کیس کا بوجھ اپنے کندھوں پر برداشت کررہی ہے ۔ یقینا پنجاب حکومت کے بچائو کے لئے فوج کو نہیں بلایا جائے گا۔ اُس وقت ایک طرف وزیر ِ اعلیٰ پنجاب کی تیزی سے ہلتی ہوئی انگلی ہوگی اور دوسری طرف ماڈل ٹائون کیس کا منڈلاتا ہوا ہیولا۔
موجودہ موسم ِگرما میں سیاسی حدت کو مزید بڑھنے اور انتشار کا لاوہ پھوٹ پڑنے سے روکنے کے لئے حکمران جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیاست چھوڑ کر عمل کی طرف آئے ۔ سب سے پہلے تو اسے اپنے ذہن سے یہ خیال کھرچ کر نکالنا ہوگا کہ پاناما گیٹ اور ماڈل ٹائون کیس کووقت گزار نے کے حربوں کے ذریعے قالین کے نیچے چھپایا جاسکتا ہے ۔ افق پر جمع ہونے والے بادل بتاتے ہیں کہ یہ گھٹا برسے بغیر نہیں چھٹے گی۔ ہاں ، اگر حکمران جماعت ڈاکٹر قادری کو کسی طور رام کرلے ، جو کہ لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے، اور اپنی پوری توجہ پاناما گیٹ پر اپوزیشن کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے پر مرکوز کرلے تو اور بات ہے ۔ لیکن اگر علامہ صاحب نے ثابت قدمی دکھائی تو پھر معاملہ مشکل ہوگا۔ چیئرنگ کراس، لاہور میں اُنھوں نے قصاص ( خون کا بدلہ خون) کا مطالبہ کیا تھا ، وہاں مصنوعی پھانسی کے پھندے بھی لہرائے گئے تھے ، تو کیا ہم عید کے بعد اس ٹریلر کی اصل فلم بھی دیکھیں گے ؟
جب ذوالفقارعلی بھٹو وزیر ِاعظم تھے تو کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ نواب محمد احمد خان کے قتل میں اُنہیں سزا ہوسکتی ہے ؟تاہم ایسا ہوا، چاہے یہ کیس کتنا ہی مبہم تھا۔ چنانچہ یہ سوچنا خوش فہمی ہوگی کہ ماڈل ٹائون قتل کیس بے نتیجہ ختم ہوجائے گا۔ نواب صاحب کے بیٹے ، احمد رضا قصوری کو کسی حد تک رام کربھی لیا گیا تھااور اُنھوں نے 1977 کے انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ کے لئے درخواست بھی دی تھی، لیکن قسمت نے اپنا راستہ خود بنا لیا۔ ذرا سوچیں کہ کیا اہل کار علامہ صاحب کے گھر باہر کچھ رکاوٹیں ہٹانے گئے تھے کہ چودہ افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا؟اب حکمران جماعت اس کیس کی جوڈیشل انکوائر ی رپورٹ شائع کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تاہم یہ کوئی چین کی طرز کا ’’ثقافتی انقلاب ‘‘ نہیں جو ہمارے ہاں ہر چیز کو تبدیل کرکے رکھ دے ۔ یقینا پاکستان انتہائی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ لیکن اگر پاکستان کو اس انتشار کا شکار ہونے سے بچانا ہے تو حکمران جماعت کو پاناما گیٹ اور ماڈل ٹائون کیس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی معجزے کے انتظار میں ریت میں سرچھپانے کو حکمت ِعملی سمجھ رہے ہیں۔
تازہ ترین