• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کا تعلق پاکستان کے شہر گجرانوالہ کے نزدیک ہی واقع کسی گائوں سے تھا وہ پہلے پاکستان میں کولڈڈرنک کی بوتلیں مختلف دکانوںپر سپلائی کیا کرتا تھا لیکن پچیس برس قبل وہ یورپ کے مختلف ملکوں میں قسمت آزمائی کرتا ہوا سوئٹزرلینڈ میں سیٹل ہوگیا ، وہاں اس نے ترقی کرتے ہوئے بہترین کاروبار سیٹ کرلیا ، اس کے زیورخ سمیت سوئٹزرلینڈ کے شہروں میں سپر اسٹورز تھے جہاں اس کے پاس کئی درجن گورے ملازم تھے جنھیں وہ لاکھوں یورو ماہانہ تنخواہیں دے رہا تھا ، میری اس سے ملاقات گزشتہ دنوں سوئٹزرلینڈ کے دورے کے موقع پر ہی ہوئی ، ایک طر ف میں اس کی بے انتہا ترقی سے متاثر ہوالیکن اس کی بے تحاشہ مصروفیت اور مشینی زندگی پر حیران بھی ہوا ، وہ صبح سب سے پہلے اپنے دفتر پہنچتا اور اسٹاف کے آنے سے پہلے ہی کام شروع کردیا کرتا ، پھروہ سوئٹزرلینڈ میں اپنے تمام اسٹورز کا اسٹاک چیک کرتا بلکہ اپنے ہیڈ آفس کے لئے بھی اسٹاک کو اپ ڈیٹ کرتا ، وہ اپنی کامیابی پر فخر کرتا اور مہینے میں ایک آدھ دفعہ بیرون ملک اپنے کاروبار کے لئے بھی چکر لگاآتا ، جہاں وہ اپنی کامیابی کو اپنی محنت کا ثمر قرار دیتا وہیں وہ پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں پر شدید تنقید کرکے کیا کرتا ، وہ سمجھتاتھا کہ اگر پاکستان کے حکمراں پاکستان کو ایمانداری اور دیانتداری سے چلائیں تو پاکستان بھی بہت آسانی سے ترقی کرسکتا ہے ، بعض دفعہ اس کی پاکستان پر تنقیدسے مجھے کوفت بھی ہوتی لیکن اس کی باتیں تلخ حقیقت تھیں لیکن کوئی ملک سے اپنی محبت کا اظہار اس کے مثبت پہلو دیکھ کر کرتا ہے تو کوئی اس کے منفی پہلو دیکھ کر ،لیکن یہ اس کی طبعیت کا ایک پہلو تھا ، لیکن وہ بلا کا ذہین شخص تھا ،ایک بہترین تجزیہ نگار بھی تھا ،تاہم اس میں حقائق سننے کا حوصلہ کم تھا، ایک بات جو آج تک مجھے اپنے اس دوست کی یاد دلاتی ہے وہ ایک محاورہ ہے جو اس نے مجھے اپنی سوئٹزرلینڈ یاترا کے دوران سنایا ، میں نے جب اس کی اس تیز رفتار مشینی زندگی کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا کریں گے اتنی دولت کا کچھ وقت اپنے لئے بھی نکالیں ،دنیا دیکھیں تھوڑی لائف بھی انجوائے کریں تو اس کا کہنا تھا کہ عرفان بھائی ۔۔۔امیرکی امیری اور غریب کی بھوک چالیس سال تک نہیں جاتی ۔ جبکہ مجھے تو ابھی پچیس سال ہی ہوئے ہیں ابھی میری بھوک ختم ہونے میں پندرہ سال باقی ہیں ۔وہ تو اپنی بات کہہ کر مسکرادیا لیکن حقائق سے قریب یہ الفاظ میرے لئے بہت معنی خیز تھے ،مجھے گہری سوچ میں دیکھ کر میرا دوست ایک بار پھر گویا ہوا ، اس نے کہا دیکھیں آپ نے بہت سے امیر دیکھیں ہونگے جو کسی بھی وجہ سے قلاش ہوچکے ہونگے لیکن ان کا اٹھنا بیٹھنا ، بات چیت کا انداز اور رکھ رکھائو امیروں جیسا ہی ہوگا ،وہ ٹیکسی میں بھی پیچھے ایسے بیٹھے ہونگے جیسے ایک امیر آدمی پچھلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے ، جبکہ اسی طرح ایک غریب آدمی جسے اللہ تعالیٰ نوازنا شروع کرتا ہے تو وہ پھر پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتا اور دولت کمانے میں مگن ہوجاتاہے ، میرا دوست مجھے اپنا محاورہ جس کا تعلق یورپ ہی کی روایات سے تھا، کو مثال دیکر سمجھا رہا تھا جو مجھے بالکل حقیقت سے قریب ہی محسوس ہوا لیکن مجھے ابھی تسلی نہیں ہوئی تھی لہذا میں نے پھر دریافت کیا تو پھر کیا چالیس سال بعد غریب آدمی امیر بن جاتا ہے میرے دوست نے مسکراتے ہوئے جواب دیا نہیں ، غریب آدمی ذہنی طور پر ہمیشہ غریب ہی رہتا ہے لیکن اس کی اولادیں پیدائشی امیر پیدا ہوتی ہیں اور وہ اپنے غریب باپ کی کمائی ہوئی دولت کو امیروں کی طرح انجوائے کرتی ہیں ،یہ مکالمہ میرے لئے کافی دلچسپ تھا ، میری سمجھ میں یہ بات آگئی کہ میرے اس دوست کی بھوک ختم ہونے میں مزید پندرہ برس باقی تھے جبکہ اس کے بچوں کی شاندار گاڑیاں دیکھ کر مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ اس غریب کے ہاں امیر بچے پیدا ہوچکے ہیں جو اس کی دولت کو بھرپور انجوائے کررہے ہیں ، بہرحال اس محاورے کی یاد اس لئے آئی کہ آج جاپانی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق دنیا کے سب سے امیر بوڑھے افراد جاپان میں بستے ہیں جن کی مجموعی دولت چودہ ٹریلین ڈالر یعنی چودہ سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح جاپانی قوم نے معاشی ترقی کو اپنا مقصد حیات بناتے ہوئے جس تیزی اور دل جمعی کے ساتھ ترقی کے راستے پر سفر شروع کیا اس وقت سے آج تک جاپانی قوم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ وہ ترقی کے راستے پر کتنا سفر طے کرچکی ہے لیکن دنیا آج جاپانی قوم کو یہ احساس دلارہی ہے کہ ترقی اور کامیابی کی اس بلندی تک پہنچتے پہنچتے جاپانی قوم کی کئی نسلیں بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہیں اور جو دولت انھوں نے زندگی بھر محنت کرکے جمع کی اسے خرچ کرنے کے لئے زندگی بھر انھیں نہ موقع ملا اور نہ ہی وقت ،یعنی یورپ کے محاورے کے مطابق جاپانی قوم کو غریبی کی بھوک کے چالیس برس گزرنے کےبعد احساس ہوا کہ جس دولت کے لئے انھو ںنے زندگی بھر محنت کی اس دولت کو استعمال کرنے کے لئے انھیں فرصت ہی نہیں ملی ،جاپانی اخبار کی رپورٹ کے مطابق کئی سو ارب ڈالر جاپانی بینکوں میں ان جاپانی بزرگ شہریوں کے فکس اکائونٹ میں موجود ہیں جو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور ان رقو م کا کوئی دعویدار بھی سامنے نہیں آرہا جس کے باعث اب جاپانی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مذکورہ کئی سو ارب ڈالر کی رقم کو سرکاری تحویل میں لے لیاجائے ، جبکہ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں وراثتی رقم اور اثاثوں کی ورثاء کو منتقلی پر دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے جو کہ پچپن فیصد ہے یعنی اگر کوئی جاپانی اپنے ورثے میں ایک لاکھ ڈالر چھوڑ کر مرا ہے تو وہ رقم اس کے بیٹے کو منتقل ہونے سے پہلے پچپن ہزار ڈالر کا ٹیکس جاپانی حکومت کو دینا پڑے گا جس کے بعد بقایا پینتالیس ہزار ڈالر کی رقم اس کے بیٹے کو ملے گی ،یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جاپانی شہری ایک لاکھ ڈالر کی رقم اپنے اکائونٹ میں چھوڑ کر مرا ہے اور اس پر ساٹھ ہزار ڈالر کا قرض بھی ہے تو اس کا بیٹا بینک میں موجود ایک لاکھ ڈالر لینے سے انکار کردے گا کیونکہ اگر اس نے وراثت کے لئے دلچسپی ظاہر کی تو اس کے حصے میں صرف پینتالیس ہزار ڈالر کی رقم آئے گی جبکہ اس کے باپ کے ذمہ جو قرض ہے وہ ساٹھ ہزار ڈالر اسے اد اکرنا پڑیں گےیعنی ملنے پینتالیس ہزار ڈالر ہیں جبکہ قرضہ ساٹھ ہزار ڈالر کا ادا کرنا ہے لہذا بیٹا باپ کے ترکے کی رقم لینے سے انکار کردیتا ہے جس کے بعد جاپانی حکومت قرضہ معاف کرکے ایک لاکھ ڈالر اپنی تحویل میں لے سکتی ہے ،لیکن یہ بات اہم ہے کہ جاپان کے چالیس فیصد افراد جن کی عمریں ساٹھ سال سے زائد ہیں وہ جاپان کے نصف سے زائد مالیت کے اثاثوں اور دولت جو چودہ سو ارب ڈالر بنتی ہے، کے مالک ہیں ۔
تازہ ترین