• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاستدانوں اور لکھنے والوں کی دنیائیں بہت مختلف ہوتی ہیں۔ میں نے خود کو لکھنے والا اس لیے لکھا ہے کہ میں بنیادی طور پر صحافی ہوں ہی نہیں کیونکہ ثقہ صحافی وہ ہوتا ہے جس کے کریڈٹ پر رپورٹنگ یا نیوز روم کا تجربہ ہو اور مجھے ان دونوں میں سے کوئی ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل نہیں۔ ڈیلی جرنلزم میں میری آمد ’’حادثہ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ میں تو ماہناموں کی دنیاسے تعلق رکھتا تھا جو نیم صحافت تو ہو سکتی ہے ’’صحافت‘‘ نہیں۔ میرے نہ نہ کرنے کے باوجود مجھے زبردستی ایک روزنامہ کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ یہ پہلا حادثہ تھا اور دوسرا تب رونما ہوا جب بطور ایڈیٹر مجھے علم ہوا کہ میرا اخبار کوئی مہنگا کالم نگار افورڈ نہیں کرسکتا۔ ردعمل کے طور پر میں نے خود کالم لکھنے کافیصلہ کرلیا یعنی کالم نگاری بھی کسی ’’حادثہ‘‘ سے کم نہیں۔ پھر یوں ہوا کہ ایڈیٹری پیچھے رہ گئی، کالم نگاری نہ صرف بہت آگے نکل گئی بلکہ بری طرح چپک بھی گئی اور بتدریج وہ کمبل بن گئی جسے میں چھوڑنا بھی چاہوں تو یہ کمبل مجھے چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ ویسے بھی اب کالم نگاری میرے لیے کسی نشہ سے کم نہیں۔
پھر وہی بات کہ سیاستدانوں اور لکھنے والوں کی اپنی اپنی دنیا ہوتی ہے مثلاً تمام تر اختلافات کے باوجود ’’انکل‘‘ الطاف حسین اور ’’بھتیجا‘‘ بلاول اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ دھرتی ماں ہوتی ہے اور ماں تقسیم نہیں ہوسکتی جبکہ ایک لکھنے والے کے طور پر میں یہ محسوس ہی نہیں کرتا، میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ ماں سے زیادہ منقسم کوئی نہیںہوتا۔ ممتا کی تو عظمت ہی یہ ہے کہ وہ اپنا آپ خوشی خوشی بچوں میں برابر برابر تقسیم کر دیتی ہے اور زندگی بھر اولاد کو علم ہی نہیں ہونے دیتی کہ وہ کس بچے سے زیادہ محبت کرتی ہے۔ ہر بچہ زندگی بھر یہی سمجھتا رہتا ہے کہ وہی ماں کی سب سے زیادہ محبت کا محور و مرکز ہے۔
ہم چھ بھائی بہن ہیں۔ دو بھائی، چار بہنیں جن میں سے ہم دونوں بھائی اور ایک بہن پاکستان میں، دو بہنیں انگلینڈ میں اور ایک امریکہ میں ہے جبکہ ہماری امی، اللہ انہیں عمر خضر عطا فرمائے کہنے کی حد تک تو میرے ساتھ رہتی ہیں لیکن سچ یہ کہ وہ بیک وقت انگلینڈ، امریکہ اور پاکستان میں رہتی ہیں بلکہ اس سے بھی آگے کا سچ یہ کہ وہ بیمبری، الفرڈ، سینٹ کلیئر، بیلی پور، گرین ایکڑز اور پی سی ایس آئی آر میں رہتی ہیں۔ یہ طلسم مادری ہے یا ممتا کی جادوگری کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ یہ محسوس کرتا ہے کہ امی اصل میں اسی کےساتھ رہ رہی ہیں۔ جب تک توانائی تھی، سفر کرسکتی تھیں تو فزیکلی بھی ہر جگہ ہو آتی تھیں لیکن اب 80 کی دہائی میں بھی کمال ’کیمرہ ٹرک‘‘ کہ ہر بچہ انہیں اپنے ساتھ ہی محسوس کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑی حقیقت یہ کہ جس ماں نے خود کو ہنسی خوشی 6 بچوں کے بچوں میں تقسیم در تقسیم ہونے کے باوجود خود بھی قائم ہے۔ مجھ ادھیڑ عمر گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے گھاگ کے ساتھ ساتھ میری بیٹی محمدہ اور بیٹوں حاتم اور ہاشم کو بھی ان کی دعائوں کا گھنا سایہ میسر ہے اور یہی رشتہ ان کا باقی پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کے ساتھ ہے تو کون کہتا ہے کہ ماں تقسیم نہیں ہوسکتی کہ ماں ہی تو تقسیم ہوتی ہے۔
مختصراً یہ کہ دھرتی ماں کو بھی واقعی ماں سمجھو اور اس کے فرماں برداراچھے بچے بن کر رہو اور ہر ماں کا پہلا فرمان یہی ہوتا ہے کہ اس کے بچے آپس میں مل جل کر رہیں، ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالیں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور آپس میں محبت سے پیش آئیں۔ ان کے درمیان عدل، احسان، صلہ ٔ رحمی کے دریا بہہ رہے ہوں بلکہ مائوں کی تو یہ خواہش بلکہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ اس کے بچوں کے بچے بھی آپس کے رشتوں میں بندھ جائیں ماں تو یہ بھی چاہتی ہے کہ اس کے بچوں میں اگر کوئی کمزور رہ جائے تو اس کے باقی بھائی بہن اس کا ہاتھ بٹائیں۔
بدقسمت ہے وہ ماں جس کے بچے ایک ہی ماں کا دودھ پی کر پروان چڑھیں اور پھر ایک دوسرے کا خون بہانے لگیں، ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے لگیں۔ بدقسمت ہے وہ ماں جس کے بچے ہی اس کی مانگ اجاڑ دیں اور کھینچا تانی میں ماں کے سر کی چادر ہی لیراں لیراں کر دیں، بدقسمت ہے وہ ماں جس کے بچے اس کی موجودگی میں یہ متحد ہونے کی بجائے منتشر ہوجائیں اور مبارک ہیں وہ بچے جو صرف اپنی ہی نہیں پرائی مائوں کا بھی احترام کرتے ہیں کیونکہ شرفاء میں بیٹیاں ہی نہیں، مائیں بھی سانجھی ہوتی ہیں۔
واقعی سیاستدان اور لکھنے والے مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔
تازہ ترین