• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے عمر گزارنے، وقت کاٹنے اور پیٹ پالنے کیلئے زندگی بھر طرح طرح کے کام کئے ہیں۔ میرے کاموں کی فہرست لمبی ہے۔ بچے پیدا کرانے سے لے کر گورکنی یعنی مردے گاڑھنے تک جتنے بھی کام ہیں، وہ میں نے کئے ہیں۔ مسلمان مردہ نہیں ملتا تو میں ہندو مردے کو شمشان گھاٹ لے جاکر اسے چتا پر جلاتا تھا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ قبر میں گاڑھنے کیلئے مجھے مسلمان مردہ اور چتا پر جلانے کیلئے مجھے ہندو مردہ نہیں ملتا تھا تب میں پارسی مردے کو ٹاور آف سائلنس Tower of silence پر چھوڑ آتا تھا جہاں گدھ، چیلیں اور کوّے مردے کو نوچ نوچ کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نادان نے بھگت کبیر کو مردہ جان کر اسے قبر میں دفن کرنا چاہا تو دانائوں نے تنبیہ کرتے ہوئے اسے روکا اور کہا کہ بھگت کبیر مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا۔ نادان نے جب بھگت کبیر کو چتا پر جلانا چاہا تو دانائوں نے کہا کہ بھگت کبیر ہندو نہیں، مسلمان تھا۔ دانائوں کی باتیں سن کر نادان شش و پنج میں پڑ گیا۔ اس نے بھگت کبیر کو کندھے پر اٹھا لیا اور اسے پارسیوں کے ٹاور آف سائلنس پر چھوڑ آیا۔ بھگت کبیر کو نوچنے کیلئے نہ گدھ آئے اور نہ چیلیں۔ سب سے پہلے کوّے آئے، کووں کے آنے سے بھگت کبیر کو آمد ہوئی اور ایک دوھا بے ساختہ بھگت کبیر کے منہ سے نکلا اور جگ مشہور ہوگیا۔
کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو، انہیں پیا ملن کی آس
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ پیٹ پالنے کیلئے میں نے بلاجھجک چھوٹے بڑے کام کئے ہیں۔ میں نے لوگوں کے ٹائلٹ تک صاف کئے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں کے ٹائلٹ گندے اور بدبو دار ہوتے ہیں وہ لوگ خود بھی گندے اور بدبودار ہوتے ہیں۔ جس ملک کے ایئر پورٹ، ریلوے، بس اسٹاپ اور سرکاری دفاتر کے ٹائلٹ گندے غلیظ اور بدبودار ہوتے ہیں اس ملک کے لوگ بھی گندے اور بدبودار ہوتے ہیں۔ میری اس بات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں نے کیسے کیسے کام کئے ہیں اور میں کیسے کیسے کام کرسکتا ہوں سوائے ایک کام کے، میں سچ نہیں بول سکتا۔ آپ مجھے بھاری بھرکم تنخواہ پر ملازم رکھیں، میں کسی بھی قیمت پر سچ نہیں بولوں گا۔ سچ سے میرا جنم جنم کا بیر ہے۔ میرے کاموں کی طویل فہرست میں طوطے سے فال نکلوانا بھی شامل ہے۔ صدر میں ریگل چوک کے قریب ایک قدیم پیپل کے پیڑ کے نیچے میں طوطا لے کر بیٹھ جاتا تھا اور لوگوں کیلئے فال نکالتا تھا۔ جب فرصت ملتی تو جوتش اور علم نجوم کی کتاب پڑھتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جوتش اور علم نجوم میری پکڑ میں آگئے۔ میں نے طوطے کو اڑا دیا اور ایک کمرہ کرائے پر لے کر نجوم، جوتش اور اختر شناسی کی دکان کھول کر بیٹھ گیا۔ میں نے دکھی انسانیت کے دکھ درد دور کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ ساس ایک واحد رشتہ ہے جس سے مرد اور خواتین نالاں رہتے ہیں، ساس کو عذاب سمجھتے ہیں۔ میں نے جب دکھی انسانیت کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا تب میرے ہاں دکھی مرد اور دکھی عورتوں کا تانتا بندھ گیا۔ زائچے بنانے اور تنتر منتر پڑھنے کے بعد میں انہیں ساس کے عنقریب مرنے کی نوید سناتا تو وہ خوشی سے اچھل پڑتے تھے اور مجھے ڈھیروں پیسے اور دعائیں دے کر جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایس ایس ایس نام کے کارکنوں نے میرے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ اصل میں وہ کارکنیاں تھیں۔ یاد رہے کہ لفظ کارکن کا مونث کارکنیاں بنتا ہے، یہ میری اپنی ایجاد ہے۔ مقتدرہ قومی زبان والے نوٹ کرلیں اور مجھے رائلٹی میں نوٹوں سے نوازیں۔
ایس ایس ایس یعنی ساس سماج سوسائٹی کی کارکنیائوں نے جن کو آپ اکثر خاتون کارکن کہتے ہیں، میرا بینڈ بجانے کے بعد میرے دفتر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ میرا علم نجوم، جوتش اور اختر شناسی تتر بتر ہوگئی۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے لوگوں کو آگاہ کرنا چھوڑ دیا کہ آنے والے دنوں میں ان کی ساس کب دنیا سے رخصت ہوگی مگر پچاس ٹیلی ویژن چینلز کے دیکھا دیکھی میری علم نجوم و جوتش کی رگ پھڑک اٹھی۔ انہوں نے طرح طرح کے نجومیوں اور جوتشیوں کو بلا کر ان سے سال 2014ء میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات، فسادات اور اقتدار کی بننے اور گرنے والی عمارات اور امارات کے بارے میں پوچھا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ نے بھی پچاس ٹیلی ویژن چینلوں سے پچاسیوں پیشگوئیوں کے پروگرام دیکھے ہوں گے۔ ہم پاکستانی ٹیلی ویژن کے کیڑے ہیں۔ ٹیلی ویژن سے چپک کر ہر قسم کا پروگرام بڑے صبر و تحمل سے دیکھتے ہیں، خاص طور پر ایسے سیاسی پروگرام جن میں ایک اینکر پرسن کانوں تک باچھیں پھیلا کر لگاتار چیخ چیخ کر بولتا رہتا ہے اور پروگرام کے شرکاء کو بولنے نہیں دیتا یا پھر ایسے اینکر پرسن کے پروگرام دیکھتے ہیں جس کا دعویٰ ہے کہ اس سے بڑا، سچا اور کھرا محب وطن آج تک جمیا ہی نہیں ہے یعنی پیدا ہی نہیں ہوا۔ پاکستان کی فلاح و بہبود اور سلامتی کا بیڑا اٹھاتے اٹھاتے اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہو گئی ہے اور وہ ہر پروگرام میں بڑا غمگین دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے ابھی مکیش کا گایا ہوا گانا گائے گا۔ ’’تیری دنیا میں دل لگتا نہیں، واپس بلا لے، مجھ کو اے مالک اٹھالے‘‘ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ مجھے پچاس ٹیلی ویژن چینلز نے اکسایا ہے کہ میں بالم اپنے علم جوتش اور نجوم اور فلکیات کے جوہر دکھائوں اور 2014ء میں رونما ہونے والے کارناموں سے آپ کو پیشگی آگاہ کردوں۔
-1 2014ء میں دھڑا دھڑ نوٹ چھپیں گے۔ پانچ ہزار روپے والے نوٹ کی بین الاقوامی منڈی میں قدر و قیمت ایک ڈالر کے برابر ہوگی۔2۔ اغواء برائے تاوان میں تاوان کی رقم تائیوان کی کرنسی میں مانگی جائے گی یا پھر ڈالرز میں۔3۔ نامی گرامی وزراء چینی دندان سازوں سے عقل داڑھ لگوانے چین جائیں گے اور واپس آنے کے بعد ساز بجائیں گے۔4۔ پائے اور گول گپے بیچنے والوں کی چاندی ہوجائے گی۔ وہ ایوان اقتدار میں مٹر گشت کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔5۔ گڑھی خدا بخش سے ہم میڈیا والوں پر پیسوں اور انعاموں اور مراعات کی بارش ہوتی رہے گی اور ہم ان کو زبردست کوریج دیتے رہیں گے۔6۔ ایک منہ سے دو نعرے سننے کو ملیں گے۔پاکستان نہ کھپے،گڑھی خدا بخش کھپے۔-7 بےنظیر بھٹو قتل کیس کی کارروائی پھر سے شروع ہوگی اور بےنظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم کرایا جائے گا۔ قتل کیس میں پوسٹ مارٹم کے بغیر تفتیش نہیں ہوسکتی۔-8 کلفٹن میں بلاول ہائوس کے سامنے روڈ پر بنی ہوئی سیسہ پلائی ایک کلو میٹر لمبی اور بیس فٹ اونچی دیوار نہیں گرے گی، کیوں کہ دیوار کھپی اینڈ گپی کمپنی نے بنائی ہے۔-9 بلاول زرداری کو ہر زاویئے سے بےنظیر جیسا نظر آنے کیلئے باہر سے میک اپ مین منگوائے جائیں گے۔
خاص ماہر بلاول کو بےنظیر کی طرح چلنا پھرنا اور اٹھنا بیٹھنا سکھائیں گے۔ اس کی آواز اور لہجہ پہلے سے ہی بےنظیر جیسا ہے۔10۔انٹرنیٹ پر کھپی اور گپی کی رومینٹک تصویریں اپ لوڈ ہوں گی۔11۔ ہمارے نواز شریف شیر پر سوار ہو کر جلسہ گاہ میں تقریر کرنے آئیں گے۔ وقفہ کے دوران شیر کے چنگھاڑنے کی آواز سنائی دے گی۔11۔ 2014ء میں تین ٹانگ والے گھوڑے چار ٹانگ والے گھوڑوں سے ریس جیت جائیں گے۔13۔ سندھ کے سردار، پیر اور وڈیرے جرگے کرتے رہیں گے۔ کاروکاری میں مسکینوں کو مرواتے رہیں گے،ڈاکے ڈلواتے رہیں گے۔ اسکول بند رکھیں گے اور الیکشن جیتتے رہیں گے۔14۔فسادی اور لوٹ مار کرنے والوں کیلئے 2014ء کا سال سود مند ہوگا۔15۔ طالبان کی خوشنودی کیلئے حکومت پاکستان آئین میں ترمیم کرنے کا سوچے گی۔
تازہ ترین