• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013ء تبدیلی کا سال واقع ہوا جس میں حکومت، عدلیہ اور فوج کی نئی قیادت نے چارج سنبھالا۔ گزشتہ برس مختلف اداروں کے مابین طاقت کا دوبارہ درست طور پر وضع کیا جانا دیکھنے میں آیا جس سے جمہوریت کو مزید تقویت ملی۔ یہ امید اور اندیشوں کا سال تھا، پرانے اور دیرینہ مسائل کے نئے فوری حل ملنے کی امید تھی اور اندیشہ یہ تھا کہ آیا ملکی قیادت معیشت اور امن کی بحالی کے مشکل چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے نتیجہ خیز حکمت عملی وضع کرنے میں کامیاب ہو سکے گی بھی یا نہیں۔ مئی کے انتخابات یقیناً گزشتہ برس کا سب سے بڑا واقعہ تھا، سیاسی تبدیلی تاریخی ثابت ہوئی کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے دوسری کو اقتدار منتقل کیا لیکن انتخابات کا سنگ میل اس سے کہیں بڑھ کر تھا، اس کی وساطت سے ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوا۔
ہیبت ناک سمجھی جانے والی قوت پیپلزپارٹی کی حکومت کو عدم کارکردگی کی بنا پر ووٹروں کے انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ قومی سطح پر ووٹ ڈالنے کی شرح کے اعتبار سے عمران خان کی تحریک انصاف نے اس سے دوسری پوزیشن بھی چھین لی۔ پیپلزپارٹی قومی سطح سے صوبے کی سطح پر آگئی لیکن اس نے خود کو سندھ کا کنٹرول حاصل کرکے اطمینان کا سانس لیا لیکن سوال یہ ہے کہ آیا قیادت سے عاری یہ اس جماعت کی وقتی تنزلی ہے، اگرچہ اسے مکمل طور پر ناقابل بحال قرار دیا جانا بھی قبل از وقت ہے لیکن حزب اختلاف میں اس کی معدوم کارکردگی نے ان شبہات کو مزید تقویت دی۔ تحریک انصاف نے اپنے نئے کردار کو وضع کرنے کی کوشش کی، سال کے بیشتر حصے میں اس نے پارلیمنٹ میں قدم جمانے کے بجائے محاذ آرائی کی سیاست کی ڈگر پر چلنے میں طمانیت جانی۔ 2013ء میں سیاسی کامیابی میاں نواز شریف کے نام رہی جن کی شاندار فتح سے اقتدار میں واپسی ہوئی جو کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی بھرپور کامیابی کی مرہون منت تھی۔ جس کی بنا پر انہیں واضح پارلیمانی اکثریت اور اتحادی جماعتوں کی درد سری کے بغیر ملک کا نظم و نسق چلانے کا اختیار حاصل ہوا۔ لیکن صوبائی سطح کی کامیابی نے وزیراعظم نوازشریف کو سیاسی بیڑیاں پہنادیں، تینوں صوبوں کی کمان دوسری سیاسی جماعتوں کے پاس ہے، اس صورتحال نے حکومت کیلئے نئے سیاسی محرکات سے احتیاط کے ساتھ نبرد آزما ہونے اور اتفاق رائے کے ساتھ حکمرانی کرنا ناگزیر بنادیا۔ مسلم لیگ ن کی مرکز میں حکومت سے تحریک انصاف کے زیر انتظام خیبرپختونخوا حکومت کے مابین اندیشوں پر مبنی تعلق اور بلوچستان میں غیرمستحکم صورتحال بھی آئندہ دنوں میں چیلنجوں کی نوید سناتی ہے۔ صوبائی سطح پر منقسم انتخابی نتائج نے بھی زیادہ سیاسی جماعتوں کو براہ راست کنڑول بخشا جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی، کم از کم 6 سیاسی جماعتیں انتخابات کے نتائج میں حکمرانی کی پوزیشن میں آئیں۔ جس میں سے خیبرپختونخوا اور سندھ کی باگ ڈور تھامنے والی دو سیاسی جماعتوں کا تشخص صوبائی نہیں بلکہ قومی سطح کا تھا جو کہ فیڈریشن کیلئے مثبت بات ہے۔ ان جماعتوں کو ووٹ دینے والوں کا تاہم پیغام ایک ہی تھا کہ پاکستان کو آگے لے کر جایا جائے۔
گزشتہ سال کے آخر میں عدلیہ میں ہونے والی تبدیلی افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت پورا ہونا تھی،جن کے دور میں عدلیہ میں غیر معمولی تحرک دیکھنے میں آیا۔ افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے کئی شعبوں میں مداخلت کی جس کی وجہ سے اکثر ان کی پذیرائی ہوئی لیکن متواتر ازخود نوٹسوں نے تنازعات کو بھی ہوا دی۔ آئین کے محافظ کے طور پر کام کرنے اور انتظامیہ کو قانون کی بالادستی کے طابع لانے کیلئے عدالت نے کئی امور پر دھاوا بولا جس کی وجہ سے یہ تنقید بھی سامنے آئی کہ وہ اپنے بنیادی کام کو نقصان پہنچا کر حد سے تجاوز کررہی ہے تاہم عدالتی تحرک نے ملکی انتظامیہ کے سرکاری ڈھانچوں کی کمزویوں کی خلاء کو پُر کیا، تصدق حسین جیلانی کو چیف جسٹس کا عہدہ ملنے کے بعد عدالت کے مزید متوازن اور کم اشتہاری کردار کی نوید سامنے آئی ہے، کسی کو شک نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی آزادی کو تحفظ دینے کیلئے اور انتظامی اقدامات کا احتساب کرنے کیلئے مضبوط اقدامات کرے گی۔ فوج میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کی کمان جنرل راحیل شریف کے سپرد کی، 2013ء کیانی کا بطور آرمی چیف6 سالہ دور کے اختتام کا سال ثابت ہوا، ان کا دور سول عسکری تعلقات کے حوالے سے نئے دور کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائےگا جس میں فوج سیاست سے دور رہی۔ بطور آرمی چیف کیانی کے دور میں اہم سیاسی سنگ میل عبور ہوئے، جس میں 2 تبدیلیاں شامل ہیں، جس میں فوج سے سویلین حکومت کو اقتدار کی منتقلی اور ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار کی منتقلی شامل ہیں لیکن دیگر پیشرفت بھی ہوئی جنہیں عسکری سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ فوج کو روایتی عسکری قوت کے ساتھ بغاوت کی سرکوبی کیلئے تربیت دینے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ روایتی عسکری صلاحتیوں کو جلا دیکر نئی جنگ کیلئے تربیت دینا فوج کی آپریشنل منصوبہ بندی اور تصور کے ارتقاء کے ضمن میں اہم پیشرفت ہے۔ 2013ء میں 4سالہ جنگی مشقوں اور جنگ کے نئے نظریئے کیلئے تربیت کا ثمر ملا جس کا مقصد بھارت کے ’کولڈ اسٹارٹ‘ جنگی حکمت عملی سے نبردآزما ہونا اور ’پروایکٹو‘ موبالائزیشن کی حکمت عملی پر کاربند ہونا تھا۔
2013ء میں ریاست کے اداروں کے مابین طاقت کی تقسیم کا توازن جاری رہا، جس میں انتخابات اور فوج کی سیاست سے علیحدگی سے جمہوریت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔ نظام میں طاقت کے توازن کو دوبارہ صحیح طور پر وضع ہونے سے حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج جیسے مختلف اسٹیک ہولڈرز کو بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے پر ایک نئی جگہ ملی۔ جس سے ایک کام جاری رہا، جس میں نئے سیاسی توازن کے قیام سے ہر ادارے کے قانونی کردار کا تسلیم ہونا شامل ہے۔ 2013ء میں اس عمل نے عظیم تر سیاسی گنجائش پیدا کی جس سے وزیر اعظم کو ملک کی حکمرانی کیلئے آسانی میسر آئی۔ اس سے ایک جانب تو عوام کی توقعات میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب پاکستان کو درپیش خوفناک چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے نتیجہ خیر طور پر کام کے آغاز کیلئے حکومت پر بھی بوجھ بڑھ گیا۔ اقتدار سنبھالنے پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی جو ترجیحات وضع کیں ان میں معاشی بحالی اور توانائی کے بحران پر قابو پانا شامل تھے لیکن وزیر اعظم نے آغاز ہی میں تسلیم کرلیا کہ جو چیلنج انہیں ورثے میں ملے ہیں ان کا حل وقت طلب ہے۔ ان کی حکومت نے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کیلئے فوری طور پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور نئی توانائی پالیسی کا اعلان کیا جس میں بجلی کے نرخ بڑھانے اور سبسڈی کے خاتمے جیسے مشکل فیصلے شامل تھے۔ اس نے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقتصادی استحکام کے متعدد اقدامات کئے۔ اپنے ابتدائی 6ماہ میں پالیسی ترجیحات طے کرنے کے بعد حکومت کی جانب سے سال کے دیگر حصے میں اس حوالے سے ساختیاتی اصلاحات کے نفاذ اور اس کی نجکاری کی پالیسی پر عملدرآمد کی توقع ہے۔
2013ء میں تاجروں کا اعتماد جزوی طور پر بحال ہوا لیکن زرمبادلہ کی کمی کے باعث معیشت کی صورتحال نازک رہی، جس سے ملک کی بیرونی سطح پر کمزور صورتحال کی وجہ سے اقتصادی استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔ معیشت ہی حکومت کی قابل اعتمادی کی کسوٹی رہے گی خاص طور پر 2014 ء میں جبکہ حکومت اپنا ایک سال مکمل کرنے والی ہے عوامی توقعات بڑھ گئی ہیں۔ معیشت کے علاوہ، 2013ء میں عوام کے سب سے بڑے خدشات اندرونی سیکورٹی کو لاحق انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے خطرات اور معیشت کی بحالی کے امکانات تھے۔ حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس میں لڑائی پر نہیں بلکہ مذاکرات پر زور دیا گیا لیکن گزشتہ برس کے دوران یہ بات غیر واضح رہی کہ آیا عسکریت پسند مذاکرات میں دلچسپی رکھتے بھی تھے یا ان کے مطالبات پر مذاکرات کئے بھی جاسکتے یا نہیں۔ مذاکرات کیلئے سرکاری تلقین پُرتشدد کارروائیوں کا خاتمہ نہ کرسکی، جس نے پولیو کی ویکسینیشن مہم کے ہیلتھ ورکروں کو نشانہ بنانے اور فرقہ وارانہ قتل کے واقعات میں اضافے سے خطرناک شکل اختیار کرلی۔ 2013ء نے ان سوالات کا جواب نہیں دیا کہ کس طرح قابل مدافعت حکومت کی مذاکرات کی کھلی دعوت کے تناظر میں پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں۔
خارجہ پالیسی، جس میں پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں سے تعلقات استوار کرنا شامل ہیں اس زمرے سمیت حزب اختلاف اور میڈیا پر حکومت نے اپنا زیادہ وقت اور توجہ صرف کی، لیکن2013ء میں بھی پہلے کی طرح یہ واضح رہا کہ ملک کے مستقبل کا دارومدار دوسرے ممالک کی جانب سے طے کردہ اہداف پر ہونے کے بجائے داخلی سطح پر لئے گئے اقدامات پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ داخلی سطح پر ہی کیا جاسکتا ہے، گزشتہ سال کا سب سے مدلل سبق یہی تھا۔
تازہ ترین