• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’انگریز بہادر‘‘ نے برصغیر میں آنے کے بعد یہاں کے لوگوں کے ساتھ کتنی زیادتیاں یا ظلم کیے یا اس خطے کو ترقی دی یا اپنے رہنے کے لیے سہولتیں پیدا کیں ۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ جس کے بارے میں ہر طرح کے دلائل دیئے جاسکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے جس پر ہمارے خیال میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ گوروں نے یہاں ریل، ہوائی جہاز، بجلی، ڈاک، ٹیلی فون، ٹیلی گراف، ٹیلی پرنٹر اور بہترین نہری نظام سے لوگوں کو متعارف کرایا لیکن ان تمام سے بڑھ کر انگریزوں نے یہاں پر ایک بہترین کام کیا۔ وہ پورے برصغیر میں بہترین اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام تھا۔ میڈیکل ایجوکیشن، ڈینٹل ایجوکیشن اور اسپتال تک قائم کیے۔ حتی کہ جانوروں کے علاج اور ان کی بیماریوں کے لیے لاہور میں بنک آف بنگال کی تاریخی عمارت میں پہلا وٹرینری کالج (عرف عام میں گھوڑا اسپتال) قائم کر ڈالا۔ یکم جنوری 1864ء کو راجہ دھیان سنگھ کی حویلی میں عظیم مادر علمی یعنی گورنمنٹ کالج لاہور یعنی جی سی نے جنم لیا۔ جب اس کالج نے سفر کا آغاز کیا تو کسے یہ پتہ تھا کہ ایک دن یہ ادارہ عظیم تعلیمی ادارہ بن جائے گا۔ اس کالج (اب یونیورسٹی) کو بہترین ادارہ بنانے میں اس کی عمارت نے ہی نہیں بلکہ ان ہستیوں کا سب سے بڑا کردار ہے جنہوں نے رات دن محنت کر کے اس خوبصورت تاریخی عمارت کو ایک نام اور مقام دیا۔ وہ نام جس کے پیچھے آج ہر کوئی ہے۔ آج ہر طالب علم جی سی (اب یونیورسٹی) میں تعلیم حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ استاد اس ادارے کے ساتھ منسلک ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہاں سے لاکھوں سٹوڈنٹس نے تعلیم حاصل کی اور ہمیشہ گردن اکڑا کر کہتے ہیں کہ وہ راوین ہیں مگر ان راوین کی فوج کو اس مادر علمی کیلئے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ کچھ نہیں کیا۔ 1996ء میں اسے خودمختار اور 2000ء میں اسے یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ اگرچہ یونیورسٹی کا درجہ دلانے اور پانے کے بعد بہت سارے لوگ خوش بھی ہوئے۔ خاص طور پر وہ پرنسپل جس کو وائس چانسلر کا عہدہ مل گیا وہ بہت خوش ہوا۔ حالانکہ اس نے اس ادارے کے لیے کچھ خاص نہ کیا۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ جی سی یو GCU کیا نام ہوا۔ اس سے ادارے کی شناخت ختم ہوگئی۔ یعنی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ۔ہماری بھی یہی ذاتی رائے ہے کہ اس ادارے کو صرف گورنمنٹ کالج لاہور ہی رہنا چاہئے تھا۔ بے شک اس کے اندر کئی اور ڈیپارنمنٹ قائم کر دیتے لیکن جی سی صرف ایک ہی ہونا چاہئے۔ جس طرح گورنمنٹ کالج کے معروف پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کہا کرتے تھے کہ گورنمنٹ کالج کا طالب علم جب سڑک پر آئے تو لوگ خود کہیں کہ وہ گورنمنٹ کالج کا طالب علم ہے۔جی سی یو کے موجود وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخلیق الرحمن درس و تدریس کا چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بڑی ہمت کی اور اس کی 150 سالہ تقریبات کر ڈالیں اور سال 2014ء کو جی سی یو کے لیے 150 سالہ تقریبات کا سال قرار دے دیا۔ ان تقریبات کا افتتاح پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کرنا تھا مگر وہ طبیعت کی ناسازی کے باعث نہ آ سکے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک ان افتتاحی تقریبات میں وزیراعظم میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف دونوں کو آنا چاہئے تھا۔ دونوں اس ادارے کے فارغ التحصیل ہیں اور دوسرے اب اگر گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کی 175 ویں یا 200 ویں سالگرہ جب منائی جائے گی تو بہت سارے لوگ اس جہاں سے دوسرے جہاں میں قیام پذیر ہو چکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو لمبی عمر اور صحت دے۔ مگر یہ بات طے تو ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آتا ہے اسے ایک روز یہاں سے کوچ کر جانا ہے دوسرے ہمارے نزدیک اگر ان تقریبات کا افتتاح کالج کے کسی انتہائی اولڈ سٹوڈنٹس جس کی عمر 80/90 برس ہوتی اس سے کرایا جاتا تو بڑا اچھا لگتا۔ اولڈراوین کی اس تقریب میں اولڈ راوین یونین کے ایک عہدے دار نے جذبات سے عاری تقریر کی۔ حالانکہ اس ایونٹ میں ایسے افراد کو بلانا چاہئے تھا جو نوجوانوں میں جوش وجذبہ بھرتے انہیں خوبصورت یادیں بتاتے ۔ مثلاً ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہمارے لیے ایک قابل احترام شخصیت ہیں مگر انہوں نے انرجی کے بحران پر بات شروع کردی اور بڑی طویل تقریر کر ڈالی جس کا اس تقریب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔دوسرے اس بات کا سخت افسوس ہوا کہ ایٹم بم کا ذکر تو کیا گیا مگر ڈاکٹر ثمر نے ڈاکٹر اے کیو خان کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کیا اور تھر سے آج تک بجلی تو بن نہیں سکی دعوے بہت کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ ساڑھے تیرہ برس کی عمر میںجب کالج میں داخلے کے لیے پرنسپل کے پاس انٹرویو کے لیے آئے تو انہوں نے یہ کہا کہ وہ ایٹمی سائنس دان بننا چاہتے ہیں بہرحال تقریب میں موجود بعض لوگ بڑے حیران ہوئے کہ ساڑھے تیرہ سال کی عمر میں انٹر میں داخلہ اور اس وقت یعنی ایٹمی سائنس دان بننے کا ارادہ۔ اس بارے میں تفصیل تو وہ ہی بتا سکتے ہیں۔ بہرحال اگر ڈاکٹر ثمر مبارک مند انرجی کے بحران پر طویل تقریر کرنے کی بجائے جی سی میں اپنے دوران تعلیم اپنے واقعات بیان کرتے تو زیادہ مناسب اور دلچسپ ہوتا۔ گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) کی دلعزیز شخصیت ڈاکٹر نذیر احمد (جن کے ہزاروں سٹوڈنٹس آج بھی پاکستان اور بیرون پاکستان ہیں) ان کا کسی نے ذکر تک نہیںکیا۔ مولانا محمد حسین آزاد کا بھی ذکر کسی نے نہیں کیا۔ اگر تقریب منعقد کرانے والے کسی اولڈ راوین سے ہی رابطہ کرلیتے اور دونوں تقریبات کی کمپیئرنگ بھی کسی اولڈ راوین سے کرالیتے۔ تو اس سے یہ تقریب جان دار بن جاتی۔ لگتا تھا کہ بڑی عجلت میں یہ پروگرام ترتیب دیا گیا۔ اس کالج میں کئی نامور اساتذہ نے پڑھایا۔ افسوس پرانے اساتذہ میں سے صرف دو یا تین اساتذہ ہی نظر آئے۔ مثلاً جیلانی کامران، سلیم اصغر میر (صفدر میر کے بھائی) عثمان ملک، پروفیسر مرزا منور، ڈاکٹر رضی واسطی، آغا یمین جو کہ آج دنیا میں نہیں۔ مگر ان کا ذکر تو کرنا چاہئے تھا۔ پروفیسر جیلانی کامران انگلش کے ہیڈ ہونے کے باوجود انہوں نے یہاں پر پنجابی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے میں کام کیا اور ایف اے میں پنجابی کی پہلی کلاس بنائی۔ جس کا پہلا طالب علم ہونے کا اعزاز مجھے حاصل ہے بی اے میں بھی پہلی کلاس کا پہلا طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ بعد میں پروفیسر گلزار بخاری جی سی میں پنجابی کے پہلے باقاعدہ لیکچرار تعینات ہو کر آئے۔ سلیم اصغر میر اردو اور جیلانی کامران انگریزی کے اساتذہ ہونے کے باوجود پنجابی کی کلاس پڑھایا کرتے تھے۔ وہ ادارہ جہاں سے شاعر مشرق علامہ اقبال نے تعلیم حاصل کی پھر پڑھایا۔ اس ادارے نے دو نوبل انعام یافتہ پیدا کیے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر ہرگوبند کاران۔
معروف اداکار دیوآنند، کامنی کوشل، احمد شاہ پطرس بخاری، فیض احمد فیض، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حنیف رامے، بی آر چوپڑہ، خوشونت سنگھ اور معروف روحانی شخصیت جناب سید سرفراز اے شاہ بھی گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) کے اولڈ سٹوڈنٹس ہیں۔ اسی طرح پروفیسر رشید جو کہ پرنسپل تھے وہ بعد میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری رہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ 150سالہ کی افتتاحی تقریبات میں اولڈ راوین کی شرکت آٹے میں نمک سے بھی کم تھی۔ بلکہ آپ انہیں انگلیوں پر گن سکتے تھے۔ وہ اساتذہ جنہوں نے یہاں پر نئے نئے ڈیپارٹمنٹ قائم کئے۔ ان کا ذکر تک نہیں ہوا۔ مثلاً پروفیسر سلیم بٹ جی سی میں سوشل ورک کے پہلے استاد تھے۔ ماشاء اللہ حیات ہیں انہیں کسی نے بلانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ کئی وہ نامور اساتذہ جنہوں نے برس ہا برس یہاں پڑھایا اور ابھی حیات ہیں انہیں بھی نہیں بلایا گیا۔ مثلاً پروفیسرآر اے خان، پروفیسربی اے چشتی، پروفیسرفضل الرحمٰن بٹ، پروفیسرصابر لودھی، پروفیسرگلزار بخاری، پروفیسرنور محمد ملک، پروفیسر محمد ارشاد اور کئی نام اور۔ یہ کیسی اولڈ راوین یونین ہے جس کے پاس اولڈ راوین کے نام اور پتے تک نہیں۔
تازہ ترین