• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سال نو میں لیڈران کے ہنوز جو بیانات میڈیا میں آئے ہیں ان میں سب سے خوبصورت بلاول بھٹو کا یہ بیان ہے ’’یقین نہیں آتا کہ بزدل پرویز مشرف نے کبھی فوجی وردی پہنی تھی‘‘ جس طرح’’شعلے‘‘ فلم میں انگریز کے زمانے کا جیلر یہ دعوے کرتا نہیں تھکتا تھا کہ’’ہماری مرضی کے بغیر کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا‘‘ اور پھر موقع آنے پر اتنی بدحواسی کہ عدالت میں پیشی کا سوچ کر کڑاکے کی سردی میں بھی اس جعلی مرد آہن کے پسینے چھوٹ رہے تھے، جو دن رات اکڑ اکڑ کر کہتا تھا کہ میں کمانڈو ہوں میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ آج دُھائیاں دے رہا ہے ہائے کوئی ہے جو میری مدد کو آئے ۔میں مشکل میں ہوں، میری جان خطرے میں ہے دیکھتا ہوں موجودہ آرمی چیف کس حد تک میری مدد کو آتے ہیں۔ کہاں گیا وہ کروفر ،وہ قومی اداروں پر اعتماد کی تقریریں وہ قانون کی حکمرانی کے دعوے۔ یہ وردی کو اپنی کھال قرار دینے والے ڈکٹیٹر جو حکمرانی میں خود کو خدا سمجھتے ہیں اور آئین سے کھلواڑ کو ایک مذاق۔ جعلی کھال کے بعد جب اصلی والی کھال میں آتے ہیں تو بقول زرداری’’دودھ پینے والا بلا‘‘ بلی بھی نہیں رہتا بلکہ بلی کی من پسند خوراک جیسا ہو جاتاہے۔
کوئی شخص جب ایک دفعہ جرم کرتا ہے تو اس میں کسی بھی نوک کی الٹی سیدھی توجیح کرنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن وہی شخص جب دوبارہ اسی شدید جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے معنی مجرمانہ ذہنیت کے لئے جاتے ہیں ایسے شخص کو قرار واقعی سزا نہ دینا پورے انسانی سماج کے ساتھ ظلم گردانا جائے گا۔12اکتوبر کو آپ نے جس طرح جمہوریت ،آئین اور پارلیمنٹ کا قتل عام کیا تھا ہم دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی پاداش میں آپ کو ہزار پھانسیوں کی سزا بھی کم تھی چہ جائیکہ آپ اس پر تائب اور نادم ہوتے آپ نے آئین شکنی کا وہی شدید ترین جرم 3نومبر کو دوبارہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کر ڈالا اور میڈیا کے سامنے فخریہ طور پر پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہا کہ’’میں نے‘‘یہ کیا ہے تو اب ہلکان کیوں ہورہے ہیں؟سانچ کو تو آنچ نہیں ہوتی قانون کا سامنا کریں کٹہرے میں کھڑے ہو کر اسی اعتماد کے ساتھ عدالت کو جواب دیں تاکہ قوم اور میڈیا کو بھی آپ کی سچائی اور اصلیت کا پتہ چل سکے۔ عوام کی عدالت آپ کے خلاف جو فیصلہ صادر کرچکی ہے وہ تو روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے جس لیڈر کو آپ نے پرائم منسٹر ہائوس سے نکال کر جیل میں ڈالا تھا ،قوم نے اسے تیسری مرتبہ منتخب کرتے ہوئے نہ صرف سرآنکھوں پر بٹھایا ہے بلکہ اسی وزیر اعظم ہائوس میں پہنچایا ہے جہاں سے آپ نے انہیں رعونت کے ساتھ نکالا تھا۔ ججز کو نکالا تو ججز کو بھی عوامی طاقت نے وہیں بحال کروادیا۔ اب آپ کی باری ہے کہ اپنے کئے کا پھل چکھیں جو بویا تھا وہ کاٹیں، اپنی سپریم عدلیہ پر اعتماد کریں۔ 12اکتوبر کے اقدام کی تو آپ نے ایک منتخب پارلیمنٹ سے معافی لے لی تھی جو اگرچہ مابعد واپس لے لی گئی تھی۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں، محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی دانش کو جنہوں نے2008ء میں وہ غلطی نہ دہرائی جو ماقبل دہرائی گئی تھی نتیجتاًمنتخب پارلیمنٹ نے آپ کو انڈیمنسٹی دینے سے انکار کردیا جو ماہرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ مشرف کے خلاف کارروائی 3نومبر کی بجائے12اکتوبر سے ہونی چاہئے انہیں اس متذکرہ بالا واضح فرق کو پیش نظر رکھنا چاہئے، قانونی پیچیدگیوں اور سیاسی بیان بازیوں میں فرق کو سمجھا جانا چاہئے یہاں ایسے’’دانا‘‘ بھی موجود ہیں جو کبھی لال مسجد اور کبھی اکبر بگٹی کے قتل کو مشرف کے خلاف مقدمے کی بنیاد بنانا چاہتے تھے۔ ہماری نظر میں یہ سب بے معنی باتیں ہیں۔ ملزم کے خلاف جو فرد جرم تیار کی گئی ہے قانونی تقاضوںکی مناسبت سے وہ نہایت مناسب ہے۔
3نومبر کا آئین شکنی پر مبنی اقدام اتنا واضح جرم ہے جس کی کسی پارلیمنٹ نے کوئی چھوٹ دی ہے نہ کسی عدالت نے اور نہ ہی کوئی ترجیح کی جاسکتی ہے۔ سچ کہتے ہیں ہوس ا قتدار میں انسان اندھاہوجاتا ہے۔ اپنے آپ کو مرد ا ٓہن سمجھنے والا اب اتنا کیوں گر رہا ہے کبھی سیکورٹی کا بہانہ بنایا جاتا ہے، کبھی بارود برآمد کروایا جاتا ہے اور اب دل کا دورہ پڑگیا ہے جبکہ میڈیکل رپورٹس اس کے برعکس ہونے پر پورا میڈیا گواہ ہے۔ جو حضرات اس مقدمے کو آرمی کے ساتھ نتھی کرنا چاہ رہے ہیں وہ بڑی زیادتی کررہے ہیں۔ آرمی کو بھلا اس سے کیا لینا دینا ہے ۔ایک شخص ہے جس نے آرمی کی شہرت کو بھی داغدار کئے رکھا، نچلے جرنیلوں کی ترقیاں روکے رکھیں ،اپنی ذاتی ہوس اقتدار کے لئے وطن عزیز کے مضبوط ترین ادارے کو بھی غلط استعمال کیا۔ قاسمی صاحب کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ سابقہ فوجی ڈکٹیٹروں کو بھی علامتی سزا سنائی جاسکتی ہے یا ان کے ناجائز اثاثے ضبط کئے جاسکتے ہیں لیکن اگر آپ ایک غلط کار کے سابقہ تعلق واسطے کو دیکھ کر قانون کا راستہ روکتے ہیں تو پھر وطن عزیز میں قانون کا تقدس اور قانون کی حکمرانی کا ورد چھوڑدیں۔آئینی ادارے تہس نہس ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں قوم ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ مگر یاد رکھئے کہ ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ ملک و قوم کے ساتھ ہی نہیں آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی ظلم ہوگا۔ قوم ڈکٹیٹر کی اگلی زندگی بیرون ملک نہیں قومی جیل میں دیکھنا چاہتی ہے۔
تازہ ترین