• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے باک مجاہد ۔کہ’’ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘

مملکت ِ خداداد پاکستان کا وجود ایک سنجیدہ تاریخی واقعہ، آج کے مسخرے، فنکار سیاستدان کہاں سے ٹپک پڑے؟ملکی سیاست اور حالات ایسے کہ موضوعات کا انبوہ بدقسمتی کہ سنجیدہ موضوع شاید ہی کوئی۔ امریکہ میں دوران تعلیم مقامی روزنامہ کے ایڈیٹر جے ہیرس(Jay Harris) سے اچھی شناسائی رہی۔ہیرس ہفتہ وار کالم لکھتا تھااور کمال کرتا تھا۔ میری تجویز کہ ایسا کمال روزانہ کیوں نہیں؟اس کا عذر کہ ملک وشہرنئے واقعات میں بانجھ چنانچہ ہفتہ کے بعدبھی موزوں موضوع ڈھونڈنے میں مشکل۔ہماری قومی زندگی المیوں سے بھرپورکہ شاید ہی کوئی دن سانحہ سے خالی۔ ہر سانحہ وطن عزیز میں موجود افراتفری اور انارکی میںتڑکہ ۔میرے جیسے جو ہفتہ وار کالم کوبھی عذابِ جاں سمجھتے ہیں، درجن بھر موضوعات کے نرغے میں کہ فوقیت جوئے شیر، شش وپنج اوراعصابی تنائو ہر ہفتہ کی مشق۔ قومی قائدین باجماعت، ذاتی کنڈکٹ اور کردار میں ’’ہر فن مولا‘‘،افکار وکردار سے ریاست کی توڑ پھوڑ میں ملوث کیوں؟کیا ان کاباطن آ شکار ہو چکا۔ انداز گفتگو ملاحظہ فرمائیں کہ 2014’’میک اِٹ آر بریک اِٹ ‘‘،لسانی بنیاد پر صوبہ تشکیل دو بصورت دیگر نیا ملک چاہیے۔ صوبہ نمبر1، صوبہ نمبر2جیسی اصطلاحیں چہ معنی؟ مشرف کا کیس علیحدہ ایک آڑا کٹا معمہ (Jigsaw Puzzle)بن چکا، اُگلے بنے نہ نگلے۔یا اللہ !یہ کیسی بستی جہاں اجاڑنے والے دندناتے پھریںجبکہ بسانے والوں کے لیے جائے اماں نہیں، بسنے والوں کے لیے امن نہیں۔ چھوٹی جماعتیں مافیا جبکہ بڑی سیاسی ومذہبی جماعتیں مسلک (CULT) بن چکیں۔تکلیف دہ مثال چشم روشن کے لیے کافی ، وطن عزیزلگ بھگ 10 ہزار میگا واٹ شارٹ فال کا شکار ، عوام الناس اگلی گرمیوں میں پھر سے ایڑیاں رگڑنے پرمجبور۔ کالا باغ ڈیم کے اصل ڈیزائن کے مطابق ساڑھے سات ہزار میگا واٹ پیداواری صلاحیت موجود ۔ مگر فنکار متحدومتفق کہ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔نام نہاد قومی جماعتیں ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور۔بجائے اس کہ کالا باغ ڈیم اور درجنوں دیگر ڈیموں کو بنانے کے لیے عوام سے وعدے وعید ہوتے، ڈیم کے اوپر تحفظات کے ازالے کے لیے قومی کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا تاکہ عوام کو ایسے عذاب سے نجات ملتی۔ قائدین ڈیموں کی مخالفت کرکے کس ایجنڈا کی تکمیل میں؟ پاکستان کی سا لمیت آپ کے نشانے پرکیوں، اس ملک نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ؟جس تھالی میں کھا رہے ہو اس میں چھید کیوں؟
گو آج کاکالم قاضی حسین احمد کے لیے مختص ،بدقسمتی کہ بے ڈھنگ موضوعات جان نہیں چھوڑ پاتے۔ ’’بابے‘‘ کا قولِ دانش، ’’ہم میں سے زندہ وہ جو دلوں میں زندہ اور دلوں میں وہی زندہ رہے گا جو زندگی میں خیر ، محبتیں اور آسانیاں بانٹے گا‘‘۔ قاضی حسین احمد نے اس کے سوا کمایا ہی کیا ہے۔ دینی ودنیاوی تعلیم سے آراستہ پیراستہ عہد ساز شخصیت آناًفاناًایسے جدا ہوئی کہ دلوں کو ویران کر گئی۔ میڈیا کا کردار قابلِ ستائش کہ نامعقولات کے ہنگام میں قاضی صاحب کو زندہ جاوید رکھا۔حیاتِ فکرو خیال علامہ اقبال اور مولانا مودودیؒسے مستعار شدہ، زندگی مثالی تو ہونا تھی۔ اس شان سے رخصت ہوئے کہ پوری زندگی مقصد کے تابع ومطابق رہی۔حق تعا لیٰ کا اپنے بندے سے وعدہ کہ ہر زمانے میں ایسے نیکو کار مو جود رہیں گے جن سے رہنمائی ملتی رہے گی ۔ آج زمانہ گواہ کہ کُونوا انصار اللہ پر لبیک قاضی صاحب کاشعار ِ زندگی رہا۔
گو دینی جماعت سے زیادہ سیاسی جانی گئی، سیاسی کامیابیوں میں ریکارڈ متاثر کن کبھی نہ رہا۔ قا ضی صا حب کی 4 دہائیوں پر محیط اپنی سیاسی زندگی متاثر کن شاید نہ ہو لیکن اس ڈھب سے گزری کہ آ ئینی زبان میں، بمطابق 62/63 ایک’’ کامل نمونہ‘‘۔ 81 ء میں امریکہ میں عمر مختار (Lion of the Desert)نامی فلم دیکھی۔ انتھونی کوئین عمر مختار کا رول ادا کر رہے تھے، ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ جب قاضی صاحب نے 1987میں امیر جماعت اسلامی کا حلف اٹھایا تولیبیاکے مجاہد عمر مختار کی مشابہت اورجھلک نظر آئی، بعد کے واقعات اوروقت نے عمر مختار سے ہی متعارف کروایا۔مولانا رومی نے دریا کو کوزے میں ایسے بند کیا کہ’’ جوانی کی توبہ شیوہ پیغمبری ‘‘ قاضی صاحب کی بے داغ جوانی شیوہ پیغمبری کی عملی تصویرر ہی ۔مولانا رومی کی ہی نشاندہی ’’جس نے خلوص کو مجسم کر دکھایا وہی معیار ِ حیات بمطابق مقصد طے کر پایا کہ خود غرضی کا شائبہ بھی مقصد کی موت ہے‘‘۔ قاضی صاحب افعال بمطابق اخلاص اور اخلاص بمطابق افعال کی ایسی عملی تصویر کہ خدا کی مرضی اور ہدایات کے خلاف کوئی کام نہ کیا۔من کی دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکو آباد کرنے والا ، تن کو اسلامی شعائر کے لیے وقف رکھا، سرمایہ حیات فقط دین ودانش،طلب و حاجت اللہ اور رسولﷺ کی رضا اور وطن ِ عزیز کی امان، کسب و جہد قال اللہ و قال رسول ﷺ ۔گفتار میںحق گوئی وبے باکی، کردار میں چٹان، وطن دشمن کے لیے ضرب کاری، خوئے دلنوازی ایسی کہ عزیزو اقا رب بھی مستفید،دوست، تحریکی ساتھی بھی مطمئن آج عزیز جہا ں کے مرتبے پر فائز۔
عمران خا ن نے جب جنوری 1996 میں سیاست میں آنے کاقصد کیا تو قاضی صا حب سے ملا قا ت ہوئی ، رہنمائی چاہی ۔قاضی صاحب اور عمران خان کا باہمی تعلق انتہائی قربت والا اور دلچسپ تھا ۔ 3نومبر کی ایمرجنسی کے بعدخفیہ ملا قا توں میں دونوں رہنما مستقبل کا ایجنڈا طے کرتے رہے ۔ عمران خان ان دنوں نواز شریف کے عشق میں مبتلا ،خیال تھاکہ مشرف کو ہٹانے کے لیے نواز شریف کو ساتھ رکھنا ضروری، قاضی صاحب اس خیال کے مخالف نہیں تھے لیکن نواز شریف کے بارے میں تحفظات موجود۔جو نیجو ،ضیاء الحق، اسحاق خان، اسلم بیگ ، IJI، آصف نواز ، جہانگیر کرامت ،فاروق لغاری ، مشرف ایک لمبی فہرست حوالہ کے لیے قاضی صاحب کو ازبر تھی ۔ آنے والے وقت نے قا ضی صا حب کے خدشات کودرست ثابت کیا۔22 نومبرکوآل پارٹیز کانفرنس میں جاوید ہاشمی ، راجہ ظفر الحق ، چوہدری نثار بڑھ چڑھ کر الیکشن کے بائیکاٹ کی وکالت کر رہے تھے تو یہ قاضی صاحب ہی تھے جنہوں نے تینوں دوستوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ’’ آپ نواز شریف سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ بائیکاٹ پر قائم رہیں گے‘‘، تینوں نے بیک زبان کہا کہ ’’اگر نواز شریف نے عہد شکنی کی تو وہ مستعفی ہو جائیں گے‘‘۔ بہرحال این آر اور کے اپنے تقاضے ،امریکی منصوبہ بھی یہی تھا کہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی توالیکشن لڑیں جبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو باہر رکھا جائے ۔مسلم لیگ ن کی چالاکی کارگر ثابت ہوئی جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو کمزور سیاسی فیصلہ کا خمیازہ بھگتناپڑا۔تحریک انصاف کی قسمت کچھ قائم رہی البتہ جماعت ِاسلامی جانبر نہ ہو سکی۔ جملہ معترضہ کہ اپنے تئیں میں نے تن من دھن لگا کر عمران خان کو بائیکاٹ سے باز رکھنے کی منت سماجت کی ۔
بدقسمتی کہ قاضی صاحب اور خان صاحب دونوں کوچہ سیاست سے نابلدقوم کی سیاسی توقعات پر پورا اترنے سے قاصر رہے کہ سیاسی استطاعت کی غیر موجودگی دونوں پارٹیوں کاآج بھی المیہ ۔قاضی صاحب کی خامی ایک ہی کہ سیاسی چوں چالاکیوں سے ناواقف، کوچہ سیاست سے نابلد کہ’’ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘،حق گوئی وبیباکی کافی نہ تھی۔ منور حسن صاحب کی یہ بات صائب اور اس میں باک نہیںکہ قاضی صاحب جماعت کو عوام الناس تک لے گئے ۔مسئلہ کشمیر قا ضی صا حب کی کمزو ری رہی کہ عظیم قائد، پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اپنی زندگی ہی میں ہی بتلا گئے ۔نظر یہ پاکستان کو اپنی سیاست کا او ڑھنا بچھونا بنا یا۔داغِ مفارقت سے چند لمحے پہلے تک فرقہ واریت کے عفریت اوراتحاد بین المسلمین کے لیے نبرد آزما تھے ،اس پرآج پو را پاکستانی معا شرہ گواہ، ہرٹی وی چینل یک زبان ۔وطنِ عزیز آج جس مشکل میں گرفتار، طاقتور استعمار پاکستان کو دبوچنے کے لئے مستعد، مزید برآں فرقہ واریت، تفرقہ بازی، لسانی وسیاسی افراتفری ، قا ضی صاحب کی غیر موجودگی کا احساس ستا رہا ہے۔دشمن ِ دین ووطن کا پہلا ہدف افوا ج پاکستان اور ایٹمی اثاثے، حصول کے لیے مخلوق میںانتشار و خلفشار ضروری، قوم کی تقسیم در تقسیم میںاپنے ہی قائدین ہمہ تن مصروف۔1992 کے بعد جب 2001میں سینے کی دوبارہ چیر پھاڑ ہوئی تو ڈاکٹرز نے 2سال حدِحیات مقر رکی، ڈاکٹروں کی سنی ان سنی کرتے ہوئے موت کا طلب گار، اُمت کودرپیش چیلنجز کا دیوانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے 2013 میں جا کے زندگی سے پسپا ہوا۔قاضی صاحب! آج آپ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ، لیکن بو ڑھا جنگجو تو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں پکڑے اپنے رب کے حضورپہنچ چکا، حضرت ابو بکرصدیقؓ کایہ قول چھوڑکر کہ ’’اللہ تو زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ ر ہنے والا، سب سے زیادہ طاقتور اور سب چالبا زوں سے بڑا چالباز‘‘۔یا اللہ وطن عزیز کی قسمت میں قاضی صاحب جیسے رہنمائوں کی کہکشاں بھی ہو گی یا حرماں نصیب قوم مسخروں، فنکاروں ، اٹھائی گیروں کے جھرمٹ میں پھنسی رہے گی۔
تازہ ترین