• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
5؍ جنوری 1928ء ذوالفقار علی بھٹو کا، 30؍ نومبر 1967ء پاکستانی قوم کا ’’سیاسی یوم پیدائش‘‘ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک ترقی یافتہ مسلم مفکر اور حکمران پاکستان کے حصے میں آیا جس نے 30؍ نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک اور قوم کو سیاسی، آئینی، اقتصادی، سماجی، تعلیمی، عالمی اور نظریاتی شعور کی نئی سرحدوں کی اہمیت اور علم سے روشناس کرایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی خدمت اور عزت کی حقیقی بحالی کے لئے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جس کے باعث ان سمیت پاکستان بھر کے ترقی پسندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گو پاکستانی عوام نے بھٹو کے فلسفۂ زندگی اور فلسفۂ اسلام کے حق میں ہی فیصلہ دیا تاہم لفظ ’’سوشلزم‘‘ کے اس وقت استعمال سے ان کے نظریاتی سفر کی رفتار میں قابل ذکر رکاوٹ پیدا ہو گئی۔
انہوں نے اپنے مختصر دور اقتدار کے مصائب اور طوفانوں کے بلاخیز جھکڑوں کے باوجود اپنے بنیادی قومی اقدامات کے بارے میں یاددلایا ’’میں اپنا دفاع اپنے ماضی کے نقوشِ قدم میں چھوڑتا ہوں۔ عوام میری خدمات اور کارناموں کو فراموش نہیں کر سکتے۔
(1) 1965ء اور اس کے بعد کے ’’آئندہ ہزار سال‘‘
(2) تاشقند (نظریاتی بغاوت کانکتۂ آغاز تھا)
(3) روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ
(4) دسمبر 1971ء میں پاکستان کے لئے بدترین خطرہ کا وقت
(5) عوام کے لئے منصفانہ اصطلاحات
(6) 90 ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی
(7) پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ
(8) 1973ء کا آئین
(9) قادیانیت کے مسئلہ کا حل
(10) اسلامی سربراہ کانفرنس
(11) ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ
میرے ایک بے حد عزیز دانشور دوست کے بقول ’’ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل پاکستان کی سول سوسائٹی کا قتل تھا۔‘‘ یہ قتل پاکستان کے ہمالیاتی عزم کو آنسوئوں کی وادی میں ڈبو چکا ہے۔
پاکستانی ذوالفقار علی بھٹو جیسے اپنے واحد ممتاز ترین قوم پرست رہنما کے یہ الفاظ کبھی فراموش نہیں کرتے، ان کی صدائے بازگشت انہیں HAUNT کرتی رہتی ہے جب بھٹو نے کہا تھا ’’میں نے طبقاتی منافرت نہیں پھیلائی۔ ہاں البتہ مظلوم عوام کا علم یقیناً بلند رکھا ہے اور ان کے حقوق دلانے کے لئے جدوجہد کی ہے اور میں اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک یہ مقدس مقصد حاصل نہیں کر لیتا۔ اگر میری زندگی میںایسا نہ ہو سکا تو مرتے وقت آخری الفاظ میں اپنے بچوں سے وعدہ لوں گا کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔ میں اسی مقصد کے لئے پیدا ہوا تھا۔ میں نے اس ملک کے ہر غریب ماں باپ کے محروم ہاتھوں میں جنم لیا ۔ میں صدیوں سے روتی ہوئی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کے لئے ملک کے سیاسی افق پر شہابِ ثاقب کی طرح ابھرا۔ میں تاریکیوں کو چھٹانے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے حضرت علیؓ کی تلوار لے کر آیا۔ مجھے کوئی ترغیب و تحریف عوام کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی۔ میں ان کے حقوق کے لئے لڑتا رہوں گا۔ میں انصاف کے حصول کی عظیم جدوجہد میں انہیں قیادت مہیا کرتا رہوں گا۔ میں اپنی آواز کے زور سے ان کی آواز میں زور پیدا کروں گا۔ میں ان کی گاڑی کو آگے بڑھانے میں اپنی پوری طاقت لگائوں گا۔ اس فرض کو ادا کرتے ہوئے میں اسلام کی طرف سے عائد کی گئی بھاری ذمہ داری نبھا رہا ہوں اور ایک انسانی مشن پورا کر رہا ہوں۔ طاقت کا پلڑا اس طبقے کے حق میں پورا پورا جھکا ہوا ہے جس نے صدیوں اور صدیوں سے تاریک گھروندوں پر حکومت کی۔ سر سے پیر تک مسلح، ناقابل تسخیر حد تک محفوظ پنڈتوں اور ڈاکوئوں کا یہ طبقہ بے زبانوں کو میری کمزور سی نارمل آواز مل جانے پر کیوں دانت کاٹنے لگتا ہے، کیوں خوف زدہ ہو جاتا ہے؟ ‘‘
5؍ جنوری 2014ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی 86 ویں سالگرہ منائی گئی۔ جس مفکر مسلم رہنما نے پاکستان اور پاکستانیوں کو قائداعظم کے نظریاتی پاکستان کی عملی صورت گری کی حقیقی جھلکیاں دکھائی تھیں اس کے سیاسی وارثوں نے اپنے خاندان کے لئے ’’خاندان شہیداں‘‘ کا لقب پسند کیا، اس کی تیسری نسل بلاول بھٹو زرداری کے روپ میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفہ حیات اور فلسفہ اسلام کی ان حقیقی جھلکیوں کی تکمیل کے لئے میدان کارزار میں اتر چکا ہے۔ پاکستان کی دھرتی پر اس کے قدموں کی چاپ اور فضائوں میں اس کی آواز کا ارتعاش محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بلاول کی آمد پر میں نے اپنے اولین احساسات آپ کے ساتھ SHARE کئے تھے۔ عرض کیا گیا تھا ’’بلاول بھٹو زرداری کی سیاست میں باضابطہ آمد کی تاریخی ساعتوں کا وجود، بلاول کے نظریاتی افکار کی جھلکیوں پر خاندانِ شہیدوں کے نواسے کے لئے ایک خاموش دعائیہ مراقبہ، یقین و اعتماد کے نئے آثار کی آمد۔ قومی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی سیاسی اثاثے کی فکری نسل نے ہمیں قائداعظم کے پاکستان کی یاد دلا دی ہے۔
بلاول سیاسی تربیت اور سیاسی مطالعہ کے مراحل سے گزر رہا ہے اس کی اعتماد اور اظہار میں بچپن کی نزاکت اور نفاست وقت کی میکانکی جبلت کے تحت مکمل بلوغت کی ثقافت اور استقامت میں ڈھلتی جائے گی، وہ اس پاکستان پیپلز پارٹی کے عکم کی پوری سربلندی کا ذمہ دار ہے ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو جس کا تعارف ان الفاظ میں دیا تھا ’’پاکستان پیپلز پارٹی صحیح معنوں میں ایک انقلابی جماعت ہے۔ پارٹی کے اندر میں اپنے تمام دوستوں اور پارٹی لیڈروں سے محبت رکھتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں۔ تاہم ایک لیڈر کی رائے کے خلاف کسی دوسرے لیڈر کی حمایت حاصل کرنے اور اس کے لئے باقاعدہ لابی بنانے کا مسئلہ میرے لئے کبھی پیدا نہیں ہوا۔ اس کا علم پارٹی کے اندر سب کو ہے۔ پارٹی سے باہر بھی بہت سے لوگ باخبر ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں۔ عوام کے ساتھ میرا براہ راست اور پارٹی کے ذریعہ رابطہ قائم ہے، اس کا سب کو علم ہے۔ عوام کی مدد اور دعائوں ہی سے میں پارٹی کے اندر فولادی قسم کا نظم وضبط برقرار رکھنے کے قابل ہوا ہوں۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کا یہ جملہ کہ ’’عوام کے ساتھ میرا براہ راست اور پارٹی کے ذریعہ رابطہ قائم ہے‘‘، بلاول کے لئے سیاسی "BOTTOM LINE" ہے گزرے پانچ برسوں میں اس اصل الاصول کو مسخ اور بدنام کیا گیا۔ بلاول کو عوام کے ساتھ پیپلز پارٹی کی یہ جڑت واپس لانی ہے۔ ابھی جو بلاول نے اپنے چند مشیروں کا اعلان کیا ہے ان میں انکل بشیر ریاض کا نام اس کی سیاسی اپروچ میں عوامی بصیرت کا سراغ دیتا ہے۔ بشیر ریاض، جو اس کے ’’انکل‘‘ ہی نہیں اس کی والدہ محترمہ بی بی شہید کے با اعتماد ساتھی، اس کے والد آصف علی زرداری کے نزدیک معتبر ترین سیاسی اثاثہ، جس کا اعتراف سابق صدر کے اس جملے میں کیا گیا ’’بشیر! کاش آپ جیسے اور بھی ہوتے۔‘‘
یہ ذوالفقار علی بھٹو کی 86 ویں سالگرہ کا سال ہے۔ وقت کی جست نے پاکستان کو ایک بار پھر ’’سر سے پیر تک مسلح، ناقابل تسخیر حد تک محفوظ پنڈتوں اور ڈاکوئوں‘‘ کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ سماجی اور اقتصادی استحصال کا وہی بدترین دور اپنے انتہائی ارتقا یافتہ درندہ پن کے ساتھ واپس آ چکا ہے، کسی ذوالفقار علی بھٹو کا نفسیاتی خوف ریاستی جابروں، صنعتی سرمایہ داروں، زرعی جاگیرداروں ، امیر تاجروں اور مذہبی اجارہ داروں کو اب ایک بار پھر قطعاً ڈسٹرب، نہیں کرتا، پاکستان کی افواج اس ’’دائیں بازو‘‘ کی ’’نظریاتی جبریت‘‘ کے نرغے میں ہیں جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے لہو سے سینچا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کو عوام کی اور عوام کو بلاول بھٹو زرداری کی ناگزیر ضرورت، شاید 70ء سے بھی کہیں زیادہ آن پڑی ہے۔ بلاول کو ذوالفقار علی بھٹو کے علم اور جرأت کا ہفت خوان پہنچانا، طے اور حاصل کرنا ہو گا۔ بلاول کے ’’انکل بشیر ریاض‘‘ آپ اسے ’’بھٹو لیگیسی‘‘ کے تاریخی ایوان میں قیام کرائیں!
پس نوشت
’’انتخابات.... قصرِ جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آنے والی یہ تاریخی دستاویز ہم سب کے سینئر اخبار نویس جناب انور قدوائی کے فکر اور تجربے کا فیصلہ کن منظر نامہ ہے جس کے رنگوں میں پاکستان کے عروج و زوال کی شناختیں پہچانی اور تلاش کی جا سکتی ہیں، معاونت جواں سال کالم نگار محمد ساجد خان کی ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے الیکشن 1946ء، 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء اور 2013 کے قومی انتخابات کے تاریخ سفید و سیاہ سے ہی آپ آگاہ نہیں ہوتے آپ کو پاکستان کے موجودہ انتشار و اضطراب کی ساری کتھا بھی پوری طرح سمجھ آ جاتی ہے۔
تازہ ترین