• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنکھیں قدرت کا انمول تحفہ ہیں مگر ہم دیگر نعمتوں کی طرح اس عطیہ خداوندی کی بھی قدر نہیں کرتے۔میں نے بینائی سے محروم ایک شخص سے پوچھا ،آپ کیسے جیتے ہیں؟ مسکرا کر کہنے لگا،تم بتائو عقل کے اندھے اور ساون کے اندھے کیسے جیتے ہیں؟ زندگی میں پہلی بار یہ احساس ہوا کہ آنکھوں کا اجالا واقعی بہت بڑی نعمت ہے لیکن علم کی روشنی نہ ہو تو زندگی اندھے پن سے زیادہ بدصورت ہوجاتی ہے مگر بعض افراد اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے سے باز نہیں آتے حالانکہ عقل اور ساون کے اندھوں کو اتنے دور کی کہاں سوجھتی ہے۔وہ تو نابینائوں سے بھی زیادہ مفلوک الحال ہوتے ہیں۔آج ایسے ہی ایک عظیم انسان کا ذکر مقصود ہے جو گزشتہ برس 6جنوری کو ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔اندھا پن کئی قسم کا ہوتا ہے مثلاً کئی لوگوں کی آئی سائٹ ٹھیک ہوتی ہے۔ ویژن کا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن وہ کلربلائنڈ ہوتے ہیں مختلف رنگوں میں فرق نہیں کر پاتے۔ اسی طرح بعض افراد فیس بلائنڈنیس یاPROSOPAGNOSIA کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں مگر چہروں کو شناخت نہیں کرسکتے۔انہیں یاد نہیں پڑتا یہ کون شخص ہے، کیا وہ اس آدمی یا عورت سے پہلے مل چکے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کو بالعموم فیس بلائنڈنیس کہا جاتاہے ۔چند سال پہلے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ فیس بلائنڈنیس بہت کمیاب بیماری ہے اور2006ء تک محض100ایسے مریض رجسٹرڈ تھے مگر بعدازاں جرمن محققین نے اس معاملے پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں کم ازکم2فیصد افراد فیس بلائنڈنیس کا شکار ہیں یعنی ہر50میں سے ایک شخص فیس بلائنڈنیس میں مبتلا ہے۔امریکن جرنل آف میڈیکل جینیٹکس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکہ میں50لاکھ افراد فیس بلائنڈر ہیں۔شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ جو شخص بھول جانے کی بیماری میں مبتلا ہو، جسے نام یاد نہ رہتے ہوں یا شکل یاد نہ رہتی ہو وہ فیس بلائنڈہے، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔کسی شناسا چہرے کو بھول جانا یا نام یاد نہ رہنا تو یادداشت کی کمزوری ہے ہم میں سے ہر ایک نام بھول سکتا ہے۔ بعض اوقات کوئی شخص سامنے آتا ہے تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اسے کہاں دیکھا ہے مگر جو لوگ فیس بلائنڈنیس کا شکار ہوتے ہیں وہ سرے سے پہچانتے اور جانتے ہی نہیں ہیں۔انہیں آنکھیں نظر آتی ہیں، کان اور ناک دکھائی دیتا ہے مگر چہرے پر فوکس نہیں کر پاتے اور انہیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ شخص کون ہے۔ اس مرض کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان ہمسایوں اور دوستوں یا معروف شخصیات کا چہرہ شناخت نہیں کرسکتا، دوسرے مرحلے میں فیس بلائنڈر اپنے افراد خاندان یہاں تک کہ اپنے بچوں اور بیوی کو بھی نہیں پہچان سکتا اور بدترین صورت یہ ہے کہ فیس بلائنڈ شخص خود اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتا یعنی اگر اسے آئینے میں اپنی صورت دیکھنے کو کہا جائے تو وہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی شکل و صورت کیسی ہے۔طبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اندھے پن سے بھی زیادہ خطرناک بیماری ہے۔یہ لوگ اپنے افراد خانہ کو مختلف علامتوں سے شناخت کرتے ہیں مثلاً ہیئراسٹائل سے، آواز سے یا کسی اور خاص نشانی سے۔ اس سے ملتی جلتی ایک اور محرومی کا نام ہے ’’PHOMAGMOSIA‘‘جن افراد میں یہ ڈس آرڈر ہوتا ہے وہ مختلف آوازوں میں فرق نہیں کر پاتے جیسے ہم محض آواز سے جان جاتے ہیں کہ فلاں شخص بات کر رہا ہے وہ اس حس سے محروم ہوتے ہیں۔
نجانے کیوں مجھے یوں لگتا ہے پاکستان میں اس مرض کی شرح خوفناک حد تک زیادہ ہے بلکہ بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ ہم سب فیس بلائنڈ ہیں۔انتخابات میں امیدوار مختلف چہروں کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو ہم انہیں ہرگز نہیں پہچان پاتے، ہم سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے چہرے مخفی رہتے ہیں اور شناخت کا یہ بحران اس قدر شدید تر ہے کہ بعض اوقات ہم اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر سرگوشیاں کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔
پہلے تو مجھے شک تھا مگر پانچ اور چھ جنوری کی درمیانی شب پختہ یقین ہو گیا کہ واقعی ہم سب فیس بلائنڈر ہیں ہم دن رات انقلاب کی مالا جپتے ہیں۔ ہر پل کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں، سواراشہب دوراں(زمانے کے گھوڑے کا سوار) کی راہ تکتے رہتے ہیں۔کسی اتاترک ،کسی آیت اللہ خمینی، کسی نیلسن منڈیلا، کسی چی گویرا، کسی طیب اردگان، کسی نجم الدین اربکان، کسی احمدی نژاد، کسی ڈاکٹر مرسی، کسی خالد مشعل کی راہ تکتے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں مگر ان سب کا قاضی، ان سب کا ماویٰ وملجا،ان سب کے شخصی اوصاف کا مرقع، ان سب کے قائدانہ جواہر کا منبع ومحور سمجھا جانے والا شخص ہمارے درمیان85سال گزار کر رخصت ہوگیا اور ہم سب اسے شناخت نہیں کر پائے۔ہم نے اسے دیکھا، اسے پرکھا، اس کے ہاتھوں کالمس محسوس کیا، اس کی نقرئی آواز ہماری سماعتوں پر دستک دیتی چلی گئی مگر ہم نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اس نجات دہندہ کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ جس دل میں امت مسلمہ کا درد ہو وہ بھلا کیسے چین پاتا۔جماعت اسلامی کے قائد قاضی حسین احمد بھی مضطرب رہے ان کی کتاب زیست کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہر صفحے پر جدوجہد کا لفظ جلی حروف میں پاتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ شعر جس نے بھی لکھا اسے اب قاضی حسین احمد سے ہی معنون کر دینا چاہئے۔
میں ایک دل ہوں رُکوں گا تو مر ہی جائوں گا
مجھے سکوں نہ دے بے قرار رہنے دے
ایک دن قاضی صاحب گھر پہنچے تو اہلخانہ سے کہنے لگے ،آج مجھے ایک ٹیکسی ڈرائیور ملا اور کہنے لگا ،قاضی صاحب!آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلاتے؟ان کے فرزند ڈاکٹر انس نے جھنجھلا کر کہا، آغا جان !ابھی تک آپ ہیرو اور سلیبرٹی کا فرق نہیں سمجھے۔لوگ فلاں اداکارہ کو بہت پسند کرتے ہیں ،وہ جہاں جاتی ہے مداحوں کا جمگھٹا لگ جاتا ہے،لوگ اس کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں لیکن کوئی عزت دار شخص اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔آپ بھی لوگوں کے لئے سلیبرٹی ہیں،لوگ آپ کے جلسوں میں آتے ہیں،نعرے لگاتے ہیں ،کندھوں پر اُٹھاتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے۔وہ اپنی قوم کے طرز تغافل سے خوب واقف تھے مگر عرض تمنا کئے فریضے سے دستکش نہ ہوئے۔وہ عمر بھر قوم کو صدائیں دیتے رہے مگر ہم جیسے فیس بلائنڈرز نجات دہندہ کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے آسمانوں سے فرشتوں کی آمد کے منتظر رہے۔’’ظالمو قاضی آرہا ہے‘‘کا نعرہ لگا تو یار لوگوں نے مخول بنا لیا یہ پھبتی کسی گئی کہ ظالمو قاضی جارہا ہے، ظالمو قاضی پچھتا رہا ہے۔ سوچتا ہوں افق کے اس پار اپنے رب کی بارگاہ میں جلوہ افروز قاضی حسین احمد عرش بریں سے فرش زمیں پر جھانکتے ہوں گے تو پوچھتے ہوں گے، قاضی تو چلا گیا مگر اب کیوں پچھتا رہے ہو؟
تازہ ترین