• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1947ء سے2014ء تک کا سفر انقلاب ہے یا دائرے کا سفر....؟اگر یہ وہی انقلاب ہے جسے مذہبی جماعتیں اسلامی انقلاب اورسیاسی پارٹیاں عوامی انقلاب، جب کہ قوم پرست گروپ قومی انقلاب کہتے ہیں اور ہر ایک برانڈ کے انقلاب کے لئے ہر جماعت نے علیحدہ علیحدہ،اپنا اپنا قائد انقلاب اور امامِ انقلاب بھی چُن رکھا ہے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا انقلاب آ چکا ہے تو پھردوسری بات ہے لیکن اگر کسی ایسے قافلۂ انقلاب کے اونٹوں کی گھنٹیاں دُور دُور تک سُنائی نہیں دے رہیں تو پھر آپ مجھ سے مت پوچھئے۔ خود سوچ لیں کہ پاک سر زمین کے لئے آج سے 99 سال بعد 3014 کا سال کیسا ہوگا...؟ انسانوں کے لئے انقلاب کی سب سے بڑی دستاویز قرانِ حکیم نے ہم جیسے لوگوں کے لئے جو فیصلہ پہلے ہی دے رکھا ہے وہ ابدی سچائی پر مبنی ہے۔ اس لئے سارے جہانوں کا مقتدرِ اعلیٰ اس فیصلے کو ہمارے قومی مزاج کی ضرورتوں کے پیشِ نظر’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کبھی تبدیل نہیں کرے گا۔ یہ فیصلہ پارہ نمبر 13میں سورۃ رعد کی آیت نمبر11 ان الفاظ میں سُناتی ہے، جس کا لفظ بلفظ ترجمہ حضرت علامہ اقبالؒ نے یوں کر رکھا ہے:۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کرۂ ارض کی دوسری قوموں پر نظر ڈالیں تو گزشتہ سال ہمارا پڑوسی اور دوست مُلک چین امریکہ کی مدد، برطانیہ کی رہنمائی اور فرانس کے قرضے کے بغیر چاند پر جا پہنچا ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں کِم ال سُنگ کے 21 سالہ پوتے نے دُنیا کی سب سے بڑی سُپر پاور اور علاقائی حریف جاپان کو آگ، بارود اور آتش و آہن کے ڈھیروں سمیت پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔بنکاک کے غریب مگر جاگتے ہوئے عوام نے اپنی ہیروئن نما وزیرِ اعظم کو اسٹریٹ پاور کے زور پر گھر سے بھگایا ہی نہیں بلکہ دارالحکومت میں راج سنگھاسن کے بڑے دفتروں پر قبضہ بھی کیا۔ بھارت کا علاقہ سُورت جس کی بندرگاہ پر 17ویں صدی میں حملہ آور فرنگیوں کے جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ اب وہاں ساری دُنیا کے دس ہیروں میں سے سات ہیرے بنائے، تراشے اور پالش کئے جاتے ہیں۔ ملائیشیا، دبئی، تھائی لینڈ، کویت، برما، سعودی عرب، برونائی، قطر، کوریا، بحرین، سری لنکا، ہانگ کانگ، تائیوان، جاپان، سنگاپور جیسے ایشیائی ممالک دُنیا کی معاشی سرگرمیوں کے مراکز بن گئے ہیں۔ دہلی کی ریاست جو کبھی برِصغیر ایشیاء کا دارالحکومت سمجھی جاتی تھی وہاں تھڑے پر سونے والے ایک عام آدمی نے وزیرِاعلیٰ کا حلف اُٹھانے کے صرف اور صرف 4 دن بعد پانی کی فراہمی مفت کر دی، بجلی کے بل آدھے کر دیئے۔ بے گھروں کو چھت فراہم کرنا شروع کر دی اور اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ ہم نے 2013ء میں فرقہ بازی، بڑھک بازی یا ذاتی کاروبار کی شو بازی کے علاوہ اس مُلک و قوم کو کیا فائدہ دیا....؟ کیا ہم نے روپے کو ذلیل نہیں کرایا....؟ کیا ہمارا کشکول جہازی سائز کا نہیں ہو گیا...؟ کیا تھانوں میں جھوٹے پرچے درج ہونا بند ہو گئے...؟ کیا عدل کی سیل کے بورڈ اُتر گئے...؟ کیا غریبوں کے چولہے جل رہے ہیں...؟ اور کیا دولت یا وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو گئی ہے...؟ کیا لوگ خوف کے بغیر اپنے گھروں میں سوسکتے ہیں...؟ کیا دہشت، وحشت، غربت کے خاتمے کا کوئی منصوبہ بن گیا ....؟ کیا پلاننگ کمیشن کے پاس شارٹ ٹرم، مڈ ٹرم یا طویل مدت کا کوئی پلان ہے...؟ جو اس سرزمین کو اُن لوگوں کا پاکستان بنا دے جن کے قدموں تلے قبر کی جگہ کی ملکیت بھی ان کے نام نہیں ہے۔ میں خوب جانتا ہوں اور آپ مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہیں اس لئے بلند آواز کے ساتھ( yes) ہاں کر دیں یا ( (Noنہ کر دیں یہ اختیار پہلے بھی آپ کے پاس تھا اور شاید اب بھی آپ کے پاس ہی ہے....!لیکن،برادرانِ جمہوریت آپ کو مبارک ہو...! مہنگائی کی دوڑ میں پاکستان ایشیاء میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ اگلے دن میں نے سینیٹ آف پاکستان میں پنڈی، اسلام آباد، پوٹھوہار ریجن اور پُورے مُلک میں گیس کی لوڈ شیڈنگ پر بات کی۔ میں نے کہا آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق ہمارا آئین لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کی ضمانت دیتا ہے ۔ جس میں ان کی ضروریات اور جسم کے لئے سہولتوں کی ضمانت بھی علیحدہ سے شامل کی گئی ہے۔ وزیروں سے بھرے ایوان کو میں نے بتایا کہ لوگ نہ ناشتہ تیار کر سکتے ہیں ،نہ دن کا کھانا، نہ رات کی روٹی کیونکہ گیس بند ہے۔ میں نے چیئرمین سینیٹ سے بھی کہا آپ اپنی خاموشی اور چُپ کا روزہ توڑیں، آپ کیوں نہیں بولتے ...؟ آپ بھی اسی زمین پر رہتے ہیں۔ استحقاق کی تحریکوں،بڑی فیکٹریوں، پرمٹوں، لائسنسوں اور میگا پروجیکٹ کے لئے بولنے والے یوں خاموش تھے جس طرح کوئی ترک شدہ گورا قبرستان ہو۔ جہاں صرف کتبے نظر آتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اِن کتبوں جیسی ساکت و جامد وہ تصویریں جنہیں سرمایہ داری کا جِن سُونگھ گیا ہے اس لئے ان کی سیاسی ڈکشنری سے لفظ غریب عوام اور اِن کے ایوانِ اقتدار سے عام آدمی بے دخل ہو چکا ہے۔
تماشے والی پارلیمنٹ میں دونوں طرف کے ہجوم عوام کی ذلت آمیز زندگی پر تماشائی ہیں یا تماش بین...؟یہ فیصلہ بھی آپ خود کریں۔ ذلت والی زندگی صرف اُن کے حصّے میں ہے جو لوگوں کو عزت والی کرسیوں پر بٹھانے کے لئے اپنے ہی ساتھ دھوکہ دہی کرتے ہیں۔اُس سردار جی کی طرح جس نے سوہاوہ ریلوے اسٹیشن سے امرتسر کا ٹکٹ خریدا، گوجرانوالہ سے ٹرین پر چڑھنے والے دوسرے سردار جی نے پوچھا سردار جی کہاں جانا ہے...؟ پہلا سردار ہنسا اور کہا ٹکٹ تو امرتسر کا ہے لیکن میں ریلوے کو تُھک لگا رہا ہوں لاہور اُتر جائوں گا۔
ہمارے مہربانوں کے ولن اور مجھ جیسے لوگوں کے ہیرو سوشل میڈیا پر ابھی تک سنسر نہیں لگایا گیا۔ سوشل میڈیا پر ہر طرح کا سچ بولا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ پر عام آدمی کے عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ وہ democracy کو demo-crazy کہہ رہا ہے۔اس صدی کا کوئی ایسا دوسرا مُلک نہیں جہاں نہ کوئی منصوبہ سازی ہو، نہ مستقبل کی پالیسی سازی، نہ امُورِ ریاست کی فیصلہ سازی اور سارا زور سُوٹ، بُوٹ، خبر اور جلسے پر ہو۔
خواتین و حضرات آئیے آج سارے مل کر اعتراف کریں کہ ہم سب جہادی ہیں۔ کوئی بعد از ریٹائرمنٹ بُلٹ پُروف پروٹوکول کے لئے جہاد کر رہا ہے، کوئی بعد از اقتدار آخری محفوظ اسپتال کی تلاش میں ہے، کوئی ایک دوسرے کو جنت بھجوا کر اپنی جنت کھری کر رہا ہے اور کوئی پورے پاکستان پر قبضہ کر کے حسن بن صباح کی جنت کی تشکیل نو کرنا چاہتا ہے۔ ایسے نظام کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے سب قتال و جدال میں مصروف ہیں۔ حبیب جالب نے 70 کے عشرے میں 2014ء کے ماحول کی تصویر ہمیں دکھائی تھی۔ میں آپ کو 3014 کی طرف متوجہ کر رہا ہوں وہ بھی حبیب جالب کے الفاظ میں۔
جنہیں ہم چاہتے ہیں والہانہ
وہ اپنے قاتلوں کو چاہتے ہیں
ہمیں آسانیاں کیوں ہوں میسر
کہ ہم خود مشکلوں کو چاہتے ہیں
ہمیں ہے عشق بڑھتے فاصلوں سے
گریزاں منزلوں کو چاہتے ہیں
تازہ ترین