• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اِس قصبے میں میرا پہلی بار گزر جون 1948ء میں ہوا جب میں محکمۂ انہار میں سگنیلر کے طور پر کام کر رہا تھا اور میرا تبادلہ لاہور سے مرالہ ہیڈ ورکس ہو گیا تھا جہاں سے اپر چناب نہر نکلتی ہے۔ میں نے سیالکوٹ جانے والی بس کا ٹکٹ خریدا جو گوجرانوالہ سے گزرتی ہوئی ڈسکہ جا کر ٹھہری۔ وہ ایک چھوٹا سا مگر بہت گنجان آباد قصبہچوہدری تھا۔ سیالکوٹ جاتے ہوئے سمبڑیال آیا اور میں ڈاک بنگلے کے قریب اُتر گیا۔ وہاں سے ہیڈ مرالہ جانے کے لیے ریل کی پٹڑی بچھی ہوئی تھی جس پر چار بیلدار ٹرالی کھینچتے ہوئے تین گھنٹے میں مرالہ پہنچتے تھے۔ بعد میں جب کبھی سمبڑیال سے لاہور آنا ہوتا ،تو راستے میں ڈسکہ آتا ، پندرہ منٹ کے لیے بس ٹھہرتی اور میں گردوپیش سے مانوس ہو گیا۔ پھر مجھے 1974ء میں وہاں چند روز قیام کرنے کا موقع ملا۔ اُن دنوں میرے برادرِ نسبتی چوہدری عبدالوحید (مرحوم) اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے۔ اُنہوں نے وہاں آنے کی دعوت دی حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میرے مسٹر بھٹو کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ چونکہ میں اُردو ڈائجسٹ میں اُن کے فاشسٹ رجحانات پر تنقید کرتا تھا اور وہ مجھے حوالۂ زنداں کر دیتے تھے۔ وہ دیانت دار ، جرأت مند اور اﷲ پر کامل یقین رکھنے والے افسر تھے ،اِس لیے کوئی مصلحت اُن کے ارادے میں حائل نہیں ہوئی اور میرا خاندان اُن کے ہاں کئی روز ٹھہرا۔ اُنہوں نے دورانِ گفتگو بتایا تھا کہ یہاں پرائیویٹ سیکٹر میں تپ دق کا ایک معیاری اسپتال ہے ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ انتالیس برس بعد میں اِسی اسپتال کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے ڈسکہ جا رہا تھا۔ کچھ روز پہلے جناب انور مغل ایڈووکیٹ کا فون آیا کہ میرا یہ خواب ہے کہ آپ اسپتال کی سالانہ تقریب میں ضرورآئیں۔ مصروفیت کے باوجود میں نے اُن کا خواب ٹوٹنے نہیں دیا اور ہم صبح دس بجے ایک اعلیٰ مقصد کی جلوہ آرائیوں کا نظارہ کرنے عالمی شہرت کے حامل اور میری دوستی کے ناز اُٹھانے والے جناب اسلم مغل کی قیادت میں نکل کھڑے ہوئے۔ جناب جاوید نواز ہمارے ہم رکاب تھے جنہوں نے اسکول کی تعلیم ڈسکہ میں حاصل کی تھی۔ وہ آج کل مسقط میں ہیں جہاں اُن کا جنونِ غافل نہیں بیٹھا اور وہ اپنی کمیونٹی میں بہت فعال رہے اور اُنہیں حکومتِ پاکستان نے سلطنت ِ عمان میں قونصلر برائے سرمایہ کاری تعینات کیا۔ اُن کے والد ِ بزرگوار چوہدری محمد نواز (مرحوم) گیارہ سال ڈسکہ میونسپلٹی میں چیف آفیسر کے طور پر کام کرتے اور فلاحی کاموں پر خصوصی توجہ دیتے رہے۔ اُن کی کوششوں سے اسٹریٹ لائٹس سے شہر جگمگا اُٹھا تھا اور پبلک پارک اور پبلک لائبریری کے قیام سے شہری شعور کو بڑی جِلا ملی تھی۔ہم دن کے بارہ بجے ٹی بی اسپتال کی خوبصورت عمارت کے سامنے کھڑے تھے جو 42کنال کے وسیع رقبے پر محیط ہے۔ اِس میں مردانہ ، زنانہ وارڈ، جدید باورچی خانہ ، لانڈری اور واش رومز کے تین سیٹ شامل ہیں۔ مریضوں کی سہولت کے لیے آرام دہ بستر،نئے ڈبل پلائی کمبل اور بیڈ سائیڈ لا کر مہیا کیے جاتے ہیں۔ اسپتال میں ایکسرے پلانٹ نصب ہے جس میں اسپتال کے اندر داخل مریضوں کا ایکسرے مفت کیا جاتا ہے جبکہ آؤٹ ڈور مریضوں سے صرف پچاس روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ گلوبل فنڈ کے تعاون سے لیبارٹری مکمل ہو چکی ہے۔ اسپتال میں ہر مریض دو سے تین ماہ زیرِ علاج رکھا جاتا ہے اور اِسی دوران مریض کو تپ دق سے نجات دلانے کے لیے پاکستان میں دستیاب سب سے اچھی اور مستند ادویات ماہر ڈاکٹروں کی زیرِ نگرانی دی جاتی ہیں۔ اِسی طرح ہر مریض کو روزانہ ایک انڈا اور صدقات میں سے آدھ کلو گوشت فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹی بی اسپتال سے مستفید ہونے والوں کی تعداد ہر ماہ ڈھائی سو سے پانچ سو تک پہنچ گئی ہے جن کاتعلق گوجرانولہ ڈویژن کے علاوہ جہلم ، اٹک، شیخوپورہ ، فیصل آباد ، بہاولنگر اور ڈیرہ غازی خاں تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس اسپتال کے اندر ہی خواتین کی بحالی کا مرکز بھی قائم ہے جن میں خواتین کو سلائی ،کڑھائی اور کشیدہ کاری تجربے کار خواتین ماہرین کی نگرانی میں سکھائی جاتی ہے۔ یہ خواتین زیادہ تر مریضوں کی رشتے دار ہوتی ہیں جو ہنر سیکھ کر باعزت طریقے سے روزی کماتی اور خاندان کی خوشحالی کا باعث بنتی ہیں۔
وسیع و عریض اور گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے معطر لان میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایڈووکیٹ انور مغل جو ٹی بی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں ، اُنہوں نے نظامت کی ذمے داری ادا کی ۔ حاضرین جو سول سوسائٹی کے نمائندے تھے ، اُن کے چہرے خوشی اور جذبۂ ایثار سے دمک رہے تھے۔ روح کے تار چھیڑنے والی تلاوت نے ایک سماں باندھ دیا اور کارروائی کے اختصار نے بہت متاثر کیا۔ اسپتال کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ 1964ء میں چند باہمت شہریوں نے اسپتال کی ابتدا ایک کمرے سے کی تھی جن میں ڈاکٹر محمد افضل مغل، ڈاکٹر ایس ایم صادق اور جناب یوسف مغل پیش پیش تھے۔لوگوں کے جذبۂ خدمت نے اسپتال کی وسعت اور افادیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ 1990ء میں اسپتال کی جدید عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ حال ہی میں محترمہ بیگم حاجی خاکسار علی بٹ نے خواتین وارڈ میں 12بیڈ ، واش روم سمیت تعمیر کرائے اور یوں بستروں کی تعداد 72تک پہنچ گئی جو ایک بڑے اسپتال ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اُس کے عمدہ ماحول کی وجہ سے مریض دور دور سے آتے اور صحت یاب ہوتے ہیں۔ سالانہ اجلاس میں آمد و خرچ کا احوال بیان کیا گیا جس سے مکمل شفافیت کا تاثر قائم ہوا۔ فنانس سیکرٹری جناب خان عباس نے نئے سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے تخمینہ دیا کہ آمدنی ساڑھے اکسٹھ لاکھ کے لگ بھگ اور اخراجات ساڑھے ستاسی لاکھ تک پہنچ جائیں گے۔ علاقے کے باشعور ایم پی اے جناب آصف باجوہ نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے ذرائع سے بھی اسپتال کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
حاضرین نے اپنی بساط کے مطابق عطیات دینا شروع کیے اور وعدے بھی کیے۔ اہلِ ڈسکہ نیکی اور فلاح کے عظیم الشان کام کا بار خوش دلی سے اُٹھائے ہوئے اور انسانی ہمدردی کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ٹی بی ایسوسی ایشن کے عہدے داران کی خدمات قابلِ ستائش ہیں کہ وہ انسانوں کو ایک موذی مرض سے نجات دلانے میں دن رات کام کر رہے ہیں اور ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کی زبردست آرزو رکھتے ہیں جو مریضوں کی مکمل فلاح کے لیے ناگزیر بنتے جا رہے ہیں۔ میں نے اپنے مختصر خطاب میں یہ اعلان کیا کہ میں پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف کو اسپتال کی عمدہ کارکردگی کا حال سناؤں گا اور اُن سے اپیل کروں گا کہ اُن کے تھوڑے سے التفات سے ڈسکہ اسپتال میں ترقیاتی کام شروع ہو سکتے ہیں۔ میں اُن سے اپنی ایک ذاتی درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے محلوں کو کاروباری کثافتوں سے صاف کرنے کے لیے بعض اچھے فیصلے کیے ہیں۔ اِس ضمن میں اِس ’’بدعت‘‘ کی روک تھام بھی ضروری ہے کہ محلوں کے اندر سرکاری دفاتر کھل گئے ہیں۔میں 189جی تھری جوہر ٹاؤن ،لاہور میں رہتا ہوں ،مجھ سے دو گھر کے فاصلے پر ایک سرکاری دفتر نے مکان کرائے پر لے رکھا ہے اور اُس کی سات آٹھ گاڑیاں محلے داری پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ توانائی کے بحران اور معیشت کی زبوں حالی کے دنوں میں ایک دفتر کے لیے اتنی گاڑیوں کا کیا جواز ہے۔ میری گزارش ہے کہ سرکاری دفاتر کی اِن تجاوزات کے خاتمے کے احکام صادر کیے جائیں تاکہ آپ کا نام بھی اُن بندوں میں بہت نمایاں نظر آئے جو خدا کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ اسپتال Anti TB Association ڈسکہ چلا رہی ہے جس کا نیشنل بینک آف پاکستان ، ڈسکہ برانچ میں اکاؤنٹ نمبر CD-467-8ہے۔
تازہ ترین