متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے کم قبول نہیں کریں گے، جو لوگ کم گنے گئے اس پر کمیشن قائم ہونا چاہیئے۔
خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی آبادی کو ٹھیک سے گنا جائے بصورت دیگر مردم شماری کو نہ شہری مانیں گے اور نا ہی ایم کیو ایم مانے گی۔
اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ تک دکھانےکی منصوبہ بندی ہے لیکن اس سازش کو ایم کیو ایم کبھی قبول نہیں کرے گی، یہ مردم شماری ہے ایسے میز پر بیٹھ کر منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔
اُنہوں نے کہاکہ ٹیکنالوجی نے ہر فرد کی گنتی آسان بنادی ہے، اس لیے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک گنا جائے، شہر کی آبادی کو آدھا دکھایا گیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ آنےوالےچند دنوں میں موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرلیں گی، یہ بہت سارے سوالات چھوڑ کر جارہی ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کئی دہائیوں سے سندھ کے شہری علاقوں میں مردم شماری پر شب خون مارا گیا، ایم کیو ایم نے کئی بار مردم شماری کی مدت انصاف کے لیے بڑھوائی ۔
اُنہوں نے مردم شماری کے طریقے کار پر سوال اُٹھایا کہ یہ کیسی مردم شماری ہے جس میں فارمولا طے کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم ٹیکس دے رہے ہیں اور ایمانداری سے دے رہے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مردم شماری کے معاملے پر ہم نے ہر سطح پر اور ہر جگہ پر آواز بلند کی اور لڑے ہیں، یہ بھی کوئی کم کامیابی نہیں کہ ہم نے 60 لاکھ افراد کراچی کے مزید گنوائے۔
اُنہوں نے سوال کیا کہ یہ 60 لاکھ افراد جو برآمد ہوئے ہیں وہ پہلے کیوں نہیں گنے جارہے تھے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم عدالتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں مایوس نہیں کیا جائے گا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اندرون سندھ میں لسانی تقسیم پر آبادی کو بڑھایا گیا، ہم نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے، عدالتی و سیاسی جدوجہد کی پوری تیاری ہے اور اگر مجبور کیا گیا تو عوامی جدوجہد کریں گے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے، ہماری تیاری پوری ہے لیکن آدھی مردم شماری کےساتھ انتخابات ہوہی نہیں سکتے، جن کے پاس سندھ کے شہری علاقوں کا 5 فیصد مینڈیٹ نہیں وہ 100 فیصد مینڈیٹ لے کر بیٹھے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمارا پہلا مطالبہ شفاف انتخابات اور دوسرا فوری انتخابات کا ہے، یہ شہر ٹیکس دے رہا ہے یہ ٹیکس پلٹ کرواپس آنا چاہیئے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کسی سیاسی دباؤ کے تحت تبدیل کی گئی آبادی المیےکو جنم دے سکتی ہے، اب جلد درست مردم شماری کا حتمی نتیجہ عوام کے سامنے آنا چاہئیں اور اس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہوں اور ووٹر فہرستیں بنائی جانی چاہئیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ وزیراعظم سے کےالیکٹرک کے معاملے پر ملاقات ہوئی، بدھ کو ایک اور ملاقات ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شہری سندھ کو تنہا نہ چھوڑیں۔
دوسری جانب، رہنما ایم کیو ایم فاروق ستار کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن ہونا چاہیئے۔
اُنہوں نے کہا کہ لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں 60 فیصد کے لحاظ سے آبادی بڑھ رہی ہے لیکن کراچی میں دکھایا گیا کہ 12 فیصد کے تناسب سے آبادی بڑھ رہی ہے۔
فاروق ستار نے کہا کہ مصنوعی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کو سندھ کا 100فیصد اختیار دیا ہوا ہے۔