• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک شخص کی آنکھوں کا آپریشن ہوا تو ڈاکٹر نے پرہیز کے طور پر تین دن تک نماز پڑھنے سے منع کر دیا کہ سجدے میں بینائی جانے کا اندیشہ ہے۔ مریض نے تین دن تک کھانا ہی نہ کھایا۔ گھر والے پریشان ہوئے۔ ڈاکٹر سے رابطہ کیا، باز پرس ہوئی تو مریض نے کہا ’’جس اللہ کی نماز نہ پڑھی جائے اس کا دیا ہوا رزق کس منہ سے کھایا جائے؟‘‘ دھیرے دھیرے اس قسم کے منہ اب کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ غالب اسی لئے کعبہ نہیں گئے تھے کہ انہیں شرم آتی تھی لیکن آج کل بہت سے لوگوں نے کئی منہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جو کبھی اپنا سا منہ لے کر پھرا کرتے تھے اب وہ بھی منہ چڑا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے جنرل پرویز مشرف صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی اور امریکہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دینے میں ان کے ہم رکاب بنے رہے گزشتہ دنوں انہیں پشاور میں ان لوگوں کے دھرنے میں بیٹھا بھی دیکھا جو ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہم نے وہ منہ بھی دیکھے جو مسور کی دال افورڈ نہیں کر سکتے تھے مگر اب ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے سبزی فروش دوست نے ہم سے کہا کہ جنرل پرویز مشرف تو اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے بھی نہیں لیکن اب عدالت کی طرف منہ کرتے ہی ان کے پائوں ٹھنڈے ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ ہم نے کہا جنرل پرویز مشرف آج بھی دلیر اور خان بہادر قسم کی چیز ہیں۔ وہ ڈرتے بالکل بھی نہیں، پائوں ٹھنڈے ہونے والی بات دوسری ہے!! دوسری بات…کیا مطلب؟ ہم نے اسے 1968ء کا ایک واقعہ سنایا کہ اسلام آباد میں دو اولیا اللہ کے آستانے ہیں، ایک گولڑہ میں پیر مہر علی شاہ صاحب کا اور دوسرا نور پور شاہاں میں بری شاہ عبداللطیف کاظمی مشہدی کا جنہیں عرف عام میں امام بری کہا جاتا ہے۔
امام بری 1617ء میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے عہد میں راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے علاقے سید کسراں میں پیدا ہوئے اور اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں مجذوب بزرگ کے طور پر علاقے میں مشہور تھے۔ آپ کے والد شاہ محمود کاظمی اور والدہ غلام فاطمہ تھیں۔آپ مولانا شیخ کریم الدین بابا حسن ابدالی عرف حیات المیر قادری کے مرید تھے۔ آپ نے 88 سال کی عمر میں 1705ء میں وصال فرمایا اور نور پور شاہاں میں تدفین ہوئی۔
بری شاہ عبداللطیف کے مزار سے تھوڑا اوپر شمال مشرقی پہاڑ کے دامن میں ’’گوئے دندی‘‘ کے مقام پر بری امام نے چلہ کشی کی تھی۔ وہاں ایک انتہائی تنگ و تاریک غار ہے جس کی اونچائی قریب قریب چھ فٹ، چوڑائی ڈیڑھ فٹ اور لمبائی تیس فٹ ہو گی۔اس میں صرف کھڑا رہا جا سکتا ہے۔ اندر جانے کے لئے ٹیڑھے رخ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل کر آخری حصّے میں جو کوئی جلتی ہوئی موم بتّی چھوڑ آئے تو اسے خوش نصیب تصوّر کیا جاتا ہے۔ 1968ء میں ہم نے بھی قسمت آزمائی اور جلتی ہوئی موم بتّی چھوڑ کر باہر آئے تو وہاں موجود چیلوں، چمٹوں اور ملنگوں نے اندر کا احوال پوچھا۔ ہم نے کہا پائوں میں کسی کے رینگنے کا احساس ہوا تھا، سنسناہٹ اور پھڑپھڑاہٹ بھی تھی، پھنکار کا گمان بھی گزرا، ایسے لگا جیسے کسی نے ہم سے ہاتھ بھی ملایا ہو!! بس ہمارا اتنا کہنا تھا کہ ملنگوں نے ہمیں کندھوں پر اٹھا لیا۔ وزن ہمارا ویسے ہی نہ ہونے کے برابر تھا بالکل لاہور کے ممتاز کہانی کار اور صحافی جناب جاوید راہی جتنا جنہیں ذوالفقار علی بھٹو چوہی کہا کرتے تھے۔ بہت سے ملنگوں نے بھبکے لگائے، جس کسی کے ہاتھ میں سینگھ تھا اس نے وہ بجایا۔ جنگل میں منگل کا سماں کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ان سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ہماری ملاقات بری امام سے ہوئی ہے۔ ایک نے کہا سرکار نے ہاتھ ملایا تو ان سے دل کی بات کرتے۔ اس واقعہ کو پینتالیس برس بیت گئے، ان دنوں ہمارے پاس دل تھا ہی کہاں بمشکل جان سنبھالے ہوئے تھے۔ جب دل والے ہوئے تو پھر کسی نے منہ ہی نہیں لگایا۔ خیر جب ان درویشوں اور ملنگوں کا شور کم ہوا، ہمیں انہوں نے کندھے سے اتارا تو ایک نے کہا کہ وہ جو پھڑپھڑاہٹ تھی، چمگادڑیں ہیں، سنسناہٹ اور پھنکار ان سانپوں کی ہے جو وہاں ہر طرف دوڑے پھرتے ہیں لیکن کسی کو کچھ کہتے نہیں کیونکہ یہ بری سرکار کے کیڑے ہیں۔ ایک اور درویش نے جھٹ سے موم بتّی جلا کر ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ بری سرکار تم سے راضی ہوئے۔ وہ بہت کم لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں، جس سے ہاتھ ملائیں اس سے دوستی کر لیتے ہیں پھر اس کی ساری باتیں مانتے ہیں۔ جائو یہ موم بتّی اندر جا کر رکھو اور خوب ان سے باتیں کرو، دل کی باتیں، انہوں نے اپنے لئے بھی سفارش کرنے کو کہا۔ وہ بہت زور دیتے رہے حتّیٰ کہ منت سماجت پر اتر آئے مگر ہمیں رہ رہ کر غار کے اندر کا ماحول یاد آتا رہا اور ہمارے پائوں ٹھنڈے ہوتے چلے گئے۔ ہم تمام تر کوشش کے باوجود آگے نہ بڑھ سکے اور پہاڑ سے نیچے اتر آئے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ڈر، ور گئے تھے۔ بس یہ ایک بات ہے جسے ہم دوسری بات کہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا جہاں تک تعلق ہے تو ان کے پائوں زیادہ دیر تک ٹھنڈے نہیں رہیں گے۔ زیادہ سے زیادہ چھ پیشیوں میں فیصلہ ہو جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ہم نے اپنے 8؍نومبر 2013ء والے کالم جس کا عنوان تھا ’’پاکستان نے امریکی ڈرون گرا دیا‘‘ میں یہی لکھا تھا کہ ’’پاکستان کے سابق عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف کی ایک ایک کر کے تمام مقدمات میں ضمانت ہو گئی ہے، وہ باعزت بری بھی ہو جائیں گے کیونکہ عدالتیں کام کر رہی ہیں‘‘۔ فوجی جب اپنے گھر والوں کو خط لکھتے ہیں تو آخر میں ایک جملہ ضرور لکھتے ہیں کہ ’’تھوڑا لکھے کو بہتا سمجھیں اور اس خط کو تار سمجھیں!!‘‘ آپ بھی ایسا ہی سمجھیں۔
تازہ ترین