• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عقلمندوں کا قول ہے کہ...تجھ کو پرائی کیا پڑی ، اپنی نبیڑ تو...لیکن ہمارے ہاں گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے میں اس دانشمندانہ قول کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم آج دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جس کے عاقبت نا اندیش حکمرانوںنے جان بوجھ کر یا اپنی سیاسی بے بصیرتی کی وجہ سے ایسے فیصلے اور اقدامات کئے ہیں جن کو صرف اس ایک محاورے میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’ آبیل مجھے مار‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہماری مختصر سی قومی زندگی ایسے ہولناک سانحوں سے بھری ہوئی ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ سب سے بڑا سانحہ تو سقوطِ مشرقی پاکستان تھا۔ جو آزادی کے صرف 23سال کے بعد ہی رونما ہوگیا۔ ملکوں کی زندگیاں تو صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ 23سال تو انسانوں کے باہمی تعلّقات کے لئے بھی تھوڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ہم نہ سنبھلے اور ہم نے دنیا کو سنوارنے اور ان کے معاملات میں ٹانگیں اڑانے کا سلسلہ بند نہ کیا۔ ہمارے فاتحینِ افغانستان نے دو بڑی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کو ’’ اسلامی جہاد‘‘ قرار دے کر پاکستان کو اس بُری طرح اس میں ملّوث کیا کہ وہ ’’ خوفناک اور جان لیوا ‘‘ بن گیا۔ جس سے ہماری جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ ہماری دوستیوں اور دشمنیوں میں ایسے خوفناک تضادات ہیں جنہوںنے ہماری سوچ کی سمتیں ہی گڈ مڈ کردی ہیں۔ ہمیں آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آسکی کہ کس کے ساتھ ہماری دوستی ’’ قومی مفاد ‘‘ میں ہے اور کس کے ساتھ قومی مفاد میں نہیں۔ یہ بھی عقلمندوں کا قول ہے کہ ہر چیز بدل جاتی ہے لیکن ہمسائے نہیں بدلتے اور جو حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے ان کے لئے ہمیں اپنی سوچ بدل لینی چاہئے۔ لیکن ہم نے حقائق کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم اپنے سے طاقتور ہمسائیوں کے ساتھ اُن دور پردیس میں بسنے والے نام نہاد دوستوں کے مفادات کی خاطر دشمنیاں بڑھاتے رہے جو کبھی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے۔ویسے بھی عالمی سیاست میں دوستیاں جذبات کی بنیادپر نہیں اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ جہاں ہم نے اپنی سرحدوں کے ساتھ’’ دشمنیاں ‘‘ مظبوط کیں وہیں اندرونِ ملک عوام کے پیدائشی جمہوری حقوق سلب کرکے ’ ’ نئی دشمنیوں‘‘ کی بنیادیں رکھ دیں پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا۔ اندرونی طور پر اپنے آپ کو اور کمزور کرنے کے لئے عوام کو مذہبی منافرت ، انتہا پسندی اور فرقہ بازی کے گورکھ دھندے میں ڈال دیا۔ گویا ہم نے انتہائی عرق ریزی سے اپنی تباہی اور بربادی کے اسباب پیدا کیے۔ اقتدار کی خاطر پاکستان کو ’’ جہنم ‘‘ بنانے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ انسانی زندگی چند روزہ ہے ۔ لیکن وہ چند روز کے اقتدار کے لئے قوم کے مستقبل کو تاریکیوں میں دھکیلتے رہے۔ پاکستان کی تباہی کی داستان خواجہ ناظم الدین کی حکومت کی برطرفی سے شروع کی جائے یا ذوالفقار علی بھٹو کے قتل سے...ہر جگہ وہ لوگ نظر آتے ہیں جن کا کام حکومت کرنا نہیں تھا اور نہ جنھیں حکومت کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ڈکٹیٹروں نے اس ملک کی بنیادیں اس حد تک کھوکھلی کردی ہیں کہ آج جو ’’ تماشا‘‘ بھی ہو رہا ہے ۔ اس کے پیچھے انہی ڈکٹیٹروں کا ہاتھ ہے جنھوں نے ہمیں کبھی بھی ایک قوم نہیں بننے دیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت اپنے وسائل ، آبادی اور تضادات کی عدم موجودگی (بھارت کے مقابلے میں) کی وجہ سے پاکستان کے بھارت کی نسبت تیز رفتار ترقی کرنے کے زیادہ مواقع تھے۔ لیکن آمروں نے عوام کو امورِ حکومت سے بیدخل کرکے موقع پرستی اور ذاتی مفادات کی سیاست کو یوں پروان چڑھایا کہ اس میں قومی سوچ اور قومی مفادات دفن ہوکر رہ گئے۔دشمنی کے جذبات اس حد تک پروان چڑھائے گئے کہ انکی نذر آدھا پاکستان کردیا۔ افغانستان میں بلا سوچے سمجھے جو مہم جوئی کی گئی اورجن رجعتی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ وہ اب پاکستان کے وجود کو ہی مٹانے پر تُل گئی ہیں۔یوں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔آپ چاہے امریکہ کو گالیاں دیں یا بھارت اور افغانستان کو ۔ ہماری حالتِ زار میں کسی بیرونی طاقت سے زیادہ خود ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔ ہم جب تک نئے سرے سے اپنی قومی ترجیحات کا تعّین نہیں کریں گے۔ ہماری تباہی کا سفر جاری رہے گا۔ہمیں یہ جان اور مان لینا چاہیے کہ نعرے بازیوں سے قومیں نہیں بنتیں۔ اس کے لئے حقائق کی روشنی میں ٹھوس لائحہ عمل تیا ر کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ہم ایک پسماندہ اور قرضوں کے بوجھ میں جکڑی ہوئی قوم ہیں۔جنہیں مزید ’’ مہم جوئیاں ‘‘ لے ڈوبیں گی۔ ہمیں سول حکمرانی کو مضبوط کرنا ہوگا۔اپنے معاملات میں فوجی مداخلت کو روکنا ہوگا۔ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعّلقات قائم کرنے ہوں گے۔ ہمیں ادھر ادھر ’’ پھنّے خانی ‘‘ کرنے کی بجائے سرجھکا کر اپنے معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ دنیا میں جنگیں مذہبی حوالوں سے نہیں ہوتیں ۔ معاشی مفادات کیوجہ سے ہوتی ہیں جبکہ قومیّت ، خطّے اور نسلوں کی طرح ’’ مذہب ‘‘ کو صرف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ کیونکہ دنیا کی تاریخ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کی باہمی لڑائیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ملک اور معاشرے صرف مذہب کے نام پر نہیں چل سکتے انکی کامیابی کی بنیاد معاشی انصاف ہوتا ہے۔ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ اپنی زمین کو دہشت گردی کے لئے کسی طور بھی استعمال نہ ہونے دیں۔ جی ہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ خدا سب انسانوں کا ہے اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ وہ سب سے محبت کر تا ہے وہ سب کو نوازتا ہے۔ وہ انہی کو پیار کرتا ہے جو اس کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔ وہ معصوموں اور بیگناہوں کو ہلاک کرنے والوں کا ساتھی نہیں۔ وہ صرف انہی قوموں کی حالت بدلتا ہے جو دانش مندی سے اپنے معاملات کو سنوارتی ہیں اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتیں ۔
تازہ ترین