• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجیب سا جھٹکا لگا18.........برس بیت گئے۔ محسوس تو یوں ہورہا ہے جیسے اٹھارہ پل بھی نہیں بیتے۔ عباس اطہر مرحوم اس اخبار کے ایڈیٹر انچیف، منو بھائی ایڈیٹر اور میں میگزین ایڈیٹر+انچارج ایڈیٹوریل پیج اورکالم نگار تھا۔ شاہ جی یعنی عباس اطہر اور میں کچھ مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اچانک سلطان راہی کے قتل کی خبر آئی۔ سناٹا طاری ہوگیا، مہمان اٹھ کر چلے گئے، میں اپنے کمرے کی طرف چل دیا اور خود کو کام میں غرق کرنے کی کوشش کی لیکن سلطان راہی میرے اعصاب پر سوار تھا حالانکہ میں اسے ذاتی طور پر جانتاتک نہ تھا اور اس کی فلم بھی شاید ایک آدھ ہی دیکھی ہوگی یعنی زیرہ ایسوسی ایشن، میں نے اسے حقیقی زندگی اور فلموں سے کہیں زیادہ پوسٹرز اور ہورڈنگز میں دیکھا تھا لیکن اس کے قتل کی اچانک خبر نے اعصاب پر عجیب سا اثر چھوڑا تھا۔ کچھ دیر بعد سرخیوں کا سلطان کلپ بورڈ اٹھائے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے پوچھا .....’’شاہ جی! خیر ہے؟‘‘ عباس اطہر نے چپ چاپ کلپ بورڈ میرے آگے رکھ دیا جس پر اگلے روز کی لیڈ یا سپر لیڈ لکھی تھی۔
’’راہی رستوں میں مارا گیا‘‘
میں کچھ دیر کے لئے سن سا ہو کر رہ گیا۔ اچانک آواز سی آئی،
’’کیسی ہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا
’’سرخی‘‘
’’بہت اچھی‘‘ میں نے مختصر سا جواب دیا تو شاہ جی زیر لب بڑبڑائے........’’سپر سٹار تھا، لوگ چار دن میں بھول جائیں گے، شاید قاتل بھی نہ پکڑے جائیں اور پھر سال کے سال فلمی صفحات پر ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوا کرے گی کہ عظیم ا داکار سلطان راہی کی موت کو اتنے برس بیت گئے اور آج دسویں، گیارہویں، بارہویں برسی ہے‘‘ .......ہاں آج اٹھارویں برسی ہے۔
اور آج مورخہ10جنوری ہر اخبار پر کراچی کے سٹار پولیس افسر چودھری اسلم کی شہادت کی خبر ہے اور کہیں کہیں ان کی بیوہ کا یہ بیان بھی کہ .......
’’اسلم سے کہتی رہی دنیا آپ کے لئے صرف تین دن روئے گی‘‘
بڑی بات ہے اگر یہ دنیا کسی کے لئے تین دن بھی رولے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ آج مرے کل دوسرا دن اور قبر کی مٹی کے سوکھنے سے پہلے لوگوں کے آنسو سوکھ جاتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ڈاکٹر جاوید سبزواری مجھے بتارہے تھے کہ بڑے سے بڑے حادثہ کا زخم زیادہ سے زیادہ کتنی دیر میں مندمل ہوجاتا ہے۔ شاید بیوہ اور بچے ہی ہیں جنہیں وقت قدم قدم پر بتاتا جتلاتا رہتا ہے کہ اب سنبھل کے چلنا کہ تمہارا پرسان حال کوئی نہیں، تم لاوارث ہو کیونکہ یہاں تو ریاست بھی وارث نہیں اور لوگوں کو بھی اپنی اپنی پڑی ہے اور جائز پڑی ہے کہ روٹی یا رونا؟ شاید میں نے پہلے بھی کبھی اس بھیانک تجربہ کا حوالہ دیا ہو کہ کئی سال پہلے میں نے کسی میگزین کے لئے ایک فیچر تیار کرایا جس کا عنوان تھا
’’مشہور لوگوں کی گمنام قبریں‘‘
مجھے کچھ کچھ اندازہ تو تھا لیکن جب زہریلے حقائق سامنے آئے تو مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ایسے ایسے مشہور و مقبول ترین سامنے آئے جن کی قبروں پر سالہا سال سے کسی نے فاتحہ تک نہیں پڑھی تھی۔
’’پھول مہنگے ہوگئے قبریں پرانی ہوگئیں‘‘
صرف ایک مثال ہی لرزہ براندام کردینے کے لئے کافی تھی، میرے ایج گروپ اور اس کے ارد گرد والے خواتین و حضرات میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ وحید مراد جیسا سٹار ڈم شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ وحید مراد کی قبر اس سڑک کے کنارے پر ہے جہاں کبھی اس کا خوبصورت گھر ہوا کرتا تھا۔ گلبرگ میں واقع اس گھر کا نام وحید مراد نے بڑے ارمانوں سے’’ارمان‘‘ رکھا تھا۔ آج اس کے مالکان نجانے کون ہیں اور اپنے اسی گھر سے چند قدم کے فاصلہ پر وحید کی وہ قبر ہے جس پر کبھی کسی نے حاضری نہیں دی۔ برسوں پہلے گورکن نے بتایا تھا کہ وحید مراد کی برسی پر اس کے کچھ پرستار آتے ہیں اور بس....... ’’ارمان‘‘ وحید مراد کی لازوال بلاک بسٹر فلم تھی جس کے نام پر اس نے اپنے گھر کا نام رکھا تھا اور جس کا انجام ’’قبرستان‘‘ نکلا۔’’اکیلے نہ جانا‘‘ خود عباس اطہر بھی داستان ہوگئے ،جس شخص کا نام اور تصویر روز چھپتی تھی....... وہ خود مٹی کی اوٹ میں اس طرح چھپ گیا کہ اب کبھی دکھائی نہ دے گا۔ میں اکثر’’جنگ‘‘کا ادارتی صفحہ جھول کر دیکھتا ہوں کہ شاید کہیں نام اور تصویر کے ساتھ ارشاد احمد حقانی صاحب کا’’حرف تمنا‘‘ دکھائی دے جائے لیکن پھر وہی بات جو جیدار چودھری اسلم کی بیوہ نے کہی کہ
’’اسلم سے کہتی رہی دنیا آپ کے لئے صرف تین دن کے لئے روئے گی‘‘
تازہ ترین