• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممبئی میں جاوید صدیقی کہہ رہے تھے کہ 2014نہ صرف دوسری جنگ عظیم کے سو سال کا تجزیہ کرنے کا زمانہ ہے، بلکہ اس سال تو کرشن چندر خواجہ احمد عباس اور بلراج ساہنی کے بھی سو سال ہورہے ہیں۔ ان کے بارے میں تقریبات اس لئے ضروری ہیں کہ نئے ادیبوں کو ان معروف ادیبوں کی تصانیف اور ان تحریروں کے باعث ادبی لب و لہجہ اور اسلوب پر اثر پڑا تھا بلکہ معاشرتی اور سیاسی تحریکات نے ان تحریروں کا کس قدر اثر قبول کیا۔ جاوید صدیقی وہی معروف شخصیت ہیں جنہوں نے ’’میں ہوں ناں‘‘، ’’کہو نا پیار ہے‘‘ نامی مشہور فلمیں تحریر کی ہیں اور جو مولانا محمد علی جوہر کے بھانجے ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ دہلی میں غالب انسٹیٹیوٹ کے مذاکرے بعنوان ’’علی سردار جعفری اور ترقی پسند شعریات‘‘ میں کوئی 40مقالے پڑھے گئے۔ تمام مقالات میں علی سردار جعفری کی زندگی، کلام اور ترقی پسند تحریک میں جعفری صاحب کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا۔ چونکہ مقررین میں شامل تقریباً تمام اساتذہ تھے۔ کچھ ریٹائرڈ اور باقی ان سروس۔ ان تمام اساتذہ کا ارتکاز جعفری صاحب کی شاعری پر تھا۔ کچھ لوگوں نے ترقی پسند ادب اور کچھ نے ترقی پسند مصنفین کے حوالے سے مضامین پڑھے۔ مجھے جب اختتامئے پر بولنے کو کہا گیا تو میں نے ان تمام پروفیسروں سے درخواست کی کہ ترقی پسند تحریک کا زمانہ علامہ اقبال، حسرت موہانی سے لے کر جوش صاحب اور جگر مراد آبادی کا زمانہ تھا۔ یہی دوسری عالمگیر جنگ کا زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں تحریک پاکستان اور آزاد ہندوستان کی سرگرمیاں بھی شروع ہوئیں۔ دوسری جانب اسی زمانے میں فیض صاحب نے فوج میں ملازمت اختیار کی۔ دوسری طرف حفیظ جالندھری نے ریڈیو پر ترانے لکھے جن کے ذریعہ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی ترغیب دی گئی اور لکھا کہ ’’میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے‘‘، اسی دور میں ڈاکٹر رشید جہاں کی خوبصورت، دلیرانہ کردار اور خواتین کو بھی آگے لانے کا مشورہ تھا مگر اتفاق یہ ہے کہ تمام مقالہ نگاروں نے ان سماجی، معاشی اور معاشرتی پہلوئوں کو نظرانداز کردیا تھا۔ جبکہ میرتقی میر بھی شہر آشوب لکھتے تھے اور1857کی وحشت ناک صورت حال کے بارے میں غالب نے بھی لکھا۔ جوش صاحب نے انقلاب او انقلاب، او انقلاب، جیسی نظمیں آخر کس انقلاب کی توقع پر لکھی تھیں۔ مخدوم محی الدین کے زمانے میں تلنگانہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ جس کی جدوجہد آج تک جاری ہے۔ آخر کیوں بریخت نے، اپنے ملک جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات پر نظمیں لکھی ہیں اور ڈرامے تحریر کئے جو آج تک زندہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم اور جنگی قیدیوں کے بارے میں، یورپی اور امریکی لازوال فلمیں بنی ہیں۔ ناول بھی لکھے گئے ہیں مگر کیا سبب ہے کہ ہمارے پاکستان میں خاص کر سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے کوئی بڑا ناول نہیں لکھا گیا جبکہ بنگلہ دیش میں اس موضوع پر بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے گئے ہیں۔
پاکستان سے مرزا حامد بیگ اور ناصر عباس نیر بھی وفد میں شامل تھے۔ ناصر عباس ہر مضمون کے لئے خاص تھیوری بناتا ہے۔ اس دفعہ جمالیات کا موضوع کیا تھا اور بہت خوب نبھایا تھا۔ رہے مرزا صاحب تو ان کی شان میں نے دلی ہی جاکر دیکھی۔ ان کی کچھ کتابیں اردو ایم اے اور بی اے کے کورس میں شامل ہیں۔ جتنے لڑکے لڑکیاں سیمینار میں آئے تھے۔ وہ تو سب مرزا حامد بیگ کے دیوانے نکلے۔ اصل میں پاکستان کی کتابیں، تمام تر اچھے تعلقات کے شور مچانے کے قطعی طور پر ہندوستان میں دستیاب نہیں ہیں۔ ادھر مرزا صاحب اپنی کتابوں کے سیٹ، دو سوٹ کیس بھر کر لے گئے تھے۔ اتنے فیاض ہیں کہ ہر یونیورسٹی کی لائبریری کی زینت بنانے کو، کتابیں عطیہ دے رہے تھے۔ اساتذہ اور طلبا و طالبات نہال ہورہے تھے کہ ہمیں تنقید کی کتابیں میسر آرہی ہیں۔ بس یہ سمجھئے کہ کانفرنس کے دولہا تو مرزا صاحب بنے ہوئے تھے۔ دو دن تو خالد اشرف صاحب ان کو چاندنی چوک سے لے کر جامع مسجد کے علاقے میں کتابیں دلوانے کے لئے گھماتے رہے۔ ان کے جنون کے آگے وہ بھی تھک ہار کر گھر بیٹھ گئے۔ بہرحال آخری دن تک ادیبوں سے کم اور کتابوں سے زیادہ ملاقاتیں کرتے رہے۔ عبید صدیقی نے ریختہ والوں کو ہمارے وفد کے باعث اپنے گھر بلایا، ہر چند کہ اس کی بیوی بھی گھر پر نہیں تھی۔ مگر نئے سال کا استقبال یہ دونوں متوالے سڑکوں پر گھوم کر مناتے رہے اب آپ پوچھیں گے یہ ریختہ والے کون ہیں۔ایک بہت بڑے بزنس مین نے اپنے سرمائے سے مزار پانے کا یہ راستہ نکالا کہ اردو شاعری کی ویب سائٹ بنادی اور نام رکھ دیا ’’ریختہ‘‘ ماہر کی حیثیت سے مشہور شاعر فرحت احساس کو اپنا ادبی مشیر مقرر کرلیا۔ دفتر کا ایک پورا فلور ریختہ کے دفاتر کیلئے مخصوص کردیا۔ 20کمپیوٹر کے ماہرین ملازمت میں رکھ لئے۔ اب جو شاعر، ادیب، فرحت احساس کے مطابق، معقول نظر آتا۔ اس کو دفتر میں لاکر، گفتگو اور شاعری ریکارڈ کرکے، ویب پہ ڈال دیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں ادب کیلئے ترسے ہوئے لوگوں کو یہ رزق مفت مل جاتا ہے۔ ریختہ پہ شاعر کو سنتے ہیں، داد دیتے اور اپنی شام گزار دیتے ہیں۔ بزنس مین سنجو کو یہ خوشی ہے کہ وہ ادیبوں سے ملاقات کرتے ہیں اور پھر کسی دوسرے ملک میں اپنی فیکٹریوں کا معائنہ کرنے نکل جاتے ہیں۔
تازہ ترین