• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب تیرا حکم ملا، ترکِ محبت کر دی
دِل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری الفت نے محبت میری عادت کر دی
جنرل پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پڑھ کر احمد ندیم قاسمی کے مندرجہ بالا اشعار مجھے یاد آ گئے۔ سوچا قارئین کی نذر کر دوں۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو دیکھا تو اِک قطرہ خون نکلا
اب آج یہ طے پایا ہے کہ مقدمہ ضابطہ فوجداری کے تحت چلے گا اور 16 تاریخ کو پرویز مشرف کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں وہ 16 تاریخ کو عدالت میں پیش ہو جائیں گے کیونکہ جب تک ان کی طبیعت بھی سنبھل جائے گی۔ وہ اس سے پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا پر بہت سے چینل والے حضرات صدر آصف زرداری اور جنرل پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری کا موازنہ کرتے رہے، حالانکہ دونوں کے حالات بالکل مختلف ہیں۔ صدر آصف صاحب کے کیسوں میں تمام شریک ملزمان پہلے ہی سے بری ہو چکے ہیں۔ آصف صاحب کے کیس ان کے صدر ہونے کی وجہ سے الگ رکھ دیئے گئے تھے اور اب چونکہ صدارتی استثنیٰ ختم ہو گیا ہے تو وہ کیس دوبارہ سامنے آ گئے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے سابق صدور کو فوجداری عدالتوں کے سامنے مقدمات کی کارروائی میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ دوسرے مہذب ملکوں میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ صدر کلنٹن پر ان کے دور صدارت میں مواخذہ ہوا تھا وہ بھی قوم سے جھوٹ بولنے پر، جس میں وہ بری ہو گئے تھے۔ ہمارے ہاں صدر پرویز مشرف نے مواخذے سے پہلے ہی اقتدار رضاکارانہ طور پر چھوڑ دیا تھا اور پھر گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوئے تھے۔ ان کے باہر جانے پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی ملک میں واپس آنے پر کوئی پابندی تھی۔ وہ تمام دوستوں اور اپنے چاہنے والوں کے مشوروں کے برخلاف خود اپنی مرضی سے پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے آئے اور مختلف مقدمات میں ملوث کر دیئے گئے۔ مقدمات میں ملوث ہونے کے بعد ان کی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہوا ہے، حالانکہ بعض اینکر حضرات سارا وقت ان کے خلاف ہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں، مگر یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ مخالفانہ پروپیگنڈے سے بھی مذکورہ شخص کو شہرت ملتی ہے، اگرچہ کہ وہ نیگٹیو (منفی) شہرت ہوتی ہے۔ ہمارے بچپن میں ریڈیو پر ایک گانا آتا تھا جس کے بول یوں تھے۔ نام لے لے کر تیرا لوگ بلاتے ہیں مجھے، میں کیا جانوں میری شہرت ہے کہ رسوائی ہے۔ شہرت اور رسوائی میں بڑا باریک فرق ہوتا ہے اور رسوائی بھی بعض اوقات کامیابی کی ضامن بن جاتی ہے۔ وینا ملک کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جتنا منفی پراپیگنڈہ اس کے خلاف ہوا اتنا ہی اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا اور وہ شہرت اور کامیابی کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی اور یہاں تک کہ مشہور عالم دین مولانا طارق جمیل کے ساتھ اس کی تصویر بھی میڈیا پر آ گئی۔ یہ مثال میں نے صرف اپنے قارئین کو یہ بتانے کے لئے دی ہے کہ بعض اوقات نیگیٹیو پبلسٹی بھی انسان کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ ہم نے شیخ مجیب الرحمن کو اگر تلہ سازش کیس میں نیگٹیو پبلسٹی دے کر اور غداری کا لیبل لگا کر اسے اسٹوڈنٹ لیڈر سے نہ صرف قومی لیڈر بنایا بلکہ اپنی قوم کا ہیرو بنا دیا۔ آج اس کی بیٹی ابھی تک اس کا کمایا ہوا کیش کروا رہی ہے اور یکے بعد دیگرے عنان حکومت سنبھال رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب سوشلزم کا نعرہ لگایا تو اس وقت کے سرمایہ دار میڈیا نے بھٹو کو کافر کا لقب دیا اور بہت سے علما نے فتوے جاری کیے۔ ان تمام نیگٹیو فتوئوں نے بھٹو کی سیاسی قدر میں مزید اضافہ کر دیا اور بھٹو نے کامیابی کی منزلیں آسانی سے طے کرلیں۔ فتوے جاری کرنے والے منہ دیکھتے رہ گئے اور بھٹو کی شہادت کے بعد اس کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دو مرتبہ اقتدار میں آئیں اور زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی ورنہ وہ تیسری مرتبہ بھی وزیراعظم منتخب ہوجاتیں۔ بہرحال ان کی شہادت کی وجہ سے پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے اقتدار کے مزے اڑائے اور اب احتساب عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے لئے ہمارے ملک میں احتساب عدالتوں کا سامنا کرنا ایک روٹین کی بات ہے کیونکہ اقتدار میں آتے ہی وہ اپنے مالی حالات درست کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اقتدار سے نکلتے ہی اپنی دولت کا عدالتوں کو حساب دینے لگ جاتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ سیاسی لیڈر کرپشن کے کیسوں سے نہ تو گھبراتے ہیں اور نہ ہی شرمندہ ہوتے ہیں۔ وہ اسے بھی اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ جس لیڈر پر جتنے زیادہ احتساب/کرپشن کے کیس بنتے ہیں، وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ آج کل نئی کرپشن عدالتوں کی رونقوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور وہاں پکنک کا سماں ہوتا ہے۔ چوہدری افتخار صاحب کے ریٹائر ہونے سے کچھ کرپٹ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے، مگر نہیں معلوم کہ یہ سکھ کتنے دنوں کا ہے۔ آخر میں چوہدری اسلم کی شہادت پر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ نڈر، بے باک افسر تھا، جس نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جام شہادت نوش کیا اور اپنے محکمے کے وقار میں بے حد اضافہ کیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آخر میں حسب روایت حسب حال شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
یہی ہے آزمانا، تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدد کے ہو لئے جب تم، تو میرا امتحان کیوں ہو
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
تیرے بے مہر کہنے سے، وہ تجھ پہ مہرباں کیوں ہو
تازہ ترین