• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائد کا یوم پیدائش مجھے محسوس ہوا کہ اس دفعہ بڑی اہمیت کے ساتھ عوام نے منایا ہے۔ جس میں بڑا جوش وخروش تھا شاید قوم کو یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ لیڈروں کی حرکات کی وجہ سے ملک ایک بار پھر کشمکش میں گھر چکا ہے اور دوراہے پر کھڑا ہوا ہے اگر اسے قائد کے اصولوں‘ اتحاد‘ تنظیم‘ یقین محکم کے ساتھ دیانت داری سے نہ چلایا گیا اور لٹیروں‘ استحصال پسندوں‘ نظریات فروخت کرنے والے چالاک عوامی قائدین سے نہ بچایا گیا تو پھر خدا ہی حافظ ہے کیونکہ اس ملک کی سیاست آہستہ آہستہ ان گروپوں کے ہاتھوں میں جارہی ہے جو قائد کے اور مسلم عوام کی ایک ملک کے حصول کے لئے جدوجہد کے خلاف تھے۔ میں نے قائد کے یوم پیدائش کی مختلف عوامی تقریبات میں شرکت بھی کی۔ جن پر عقیدت اور جدوجہد کا رنگ نمایاں تھا۔ زندگی سے بھرپور ماحول نظر آیا کسی جماعت کا رنگ نہ تھا بلکہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ شریک تھے۔ جوش جذبہ تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جذبہ کو آگے بڑھایا جائے۔ایک اہم تقریب راولپنڈی چیمبر آف کامرس کی تھی۔ جس میں راولپنڈی شہر کے نوجوان تاجروں نے شرکت کی معلوم ہورہا تھا کہ قوم قائد کی تعلیمات کی طرف تیزی سے لوٹ رہی ہے اسے یقین ہے کہ ان تعلیمات اور اصولوں پر چل کر ہی پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔ مختلف مقررین نے قائد محترم کو خراج عقیدت پیش کیا جو روایتی انداز میں نہیں بلکہ انقلابی انداز میں تھا مجھے انہوں نے اس تقریب کا مہمان خصوصی بنایا اور کیک کاٹنے کا اعزاز بھی بخشا میں نے انتہائی پرجوش تقریر کی۔ میری آنکھوں میں ایک اچھے مستقبل کیچمک تھی اور یقین ہوگیا کہ یہ قوم اب کھڑی ہوگئی ہے۔ کوئی علیحدگی پسند‘ لسانی تعصب رکھنے والا کسی مسلککی بنیاد پر پاکستان کو کمزور کرنے والے لیڈرکی سیاست اب یہاں پنپ نہیں سکتی۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں آمریت کے چاہنے والوں‘ خود ساختہ مذہبی لیڈر شپ اوربہت سے لوگوں نے قائداعظم کی شخصیت کو دھندلانے کی کوشش بہت کی مگر انسان اتنا بلندوبالا تھا کہ آج اس کے بدترین دشمنوں نے بھی اس کی تعریف میں کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر مسٹر ایڈوانی‘ کرشن لال چندر اور بے شمار ادیبوں اور لکھاریوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان کے نظریات کے مخالفین کو چھوٹے لوگ قرار دیا ہے۔ جس پر انہیں ان کی جماعتوں سے نکال دیا ہے اور اس سرزمین کی جس کے لئے انہوں نے اپنا تن من دھن لگادیا لوگ ان کی شخصیت کو ’’گہنانے‘‘ کی کوشش کررہے ہیں ان کے نام پر بنی ہوئی چیزوں کے نام بھی تبدیل کئے جارہے ہیں پچھلے دنوں تو سرکاری تقریبات سے ان کی تصاویر بھی غائب کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لوگوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ہمیشہ کی طرح پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھوں گا اور ان کے نظریات پر سرگرم رہوں گا۔ میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے ان کی ہمشیرہ کے صدارتی الیکشن میں جو ایوب خان کے مدمقابل تھیں ان کا تجویزکنندہ تھا اور انشاء اللہ اپنا قلم بھی میں نے ان کے لئے وقف کررکھا ہے۔چیمبر آف کامرس کے صدر اور ان کے نوجوان ساتھیوں کی باتیں سن کر یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک انقلابی انداز فکر رکھنے والے نوجوان ہیں۔ روایتی کاروباری لوگ نہیں۔ قائد وہ عظیم رہنما تھا کہ جس نے اپنے اہل خاندان کوکوئی منافع بخش کام کرنے سے روک دیا۔ ان کے بارے میں (STANLY WALPERT) برطانوی مصنف اور یورپی مصنفین نے بہت اہم کتابیں لکھی ہیں مگر ہمارے چینلز نہیں دکھاتے پتہ نہیں کیوں؟ میں نے ہندوستان ٹی وی سے اپنے تحریک پاکستان اور جماعت کے لوگوں کو دیکھا ہے اب اس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو یہ ہوا کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اب چیمبر کے رہنمائوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس طرف توجہ دینگے۔ قائد ایجی ٹیشن کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے مگر انہوں نے بذریعہ ’’بیلٹ بکس‘‘ یہ ملک حاصل کیا۔ ان کے رفقاء کار میں ایک بھی کرپٹ اور بے مقصد بیانات دینے والاسیاستدان موجود نہ تھا۔ اس لئے قائد کے تمام ساتھی جب اللہ کے حضور گئے تو خالی ہاتھ تھے مجھے ان لوگوں کے ساتھ رہنے کا اعزاز حاصل رہا ہے کیا کوئی آج یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے بین الاقوامی معیار کی کوئی بھی کتاب ان کی اور انکےساتھیوں کے بارے میں لکھی ہے۔ (Freedom at night)ہمارے رہنما اگر قائد کا رول ماڈل اپنا لیں تو قوم کی کشتی منجدھار سے نکل سکتی ہے ہمارے رہنمائوں کے دولت کے انبار بیرونی ملکوں میں کیوں ہیں؟
میں نے یہ تمام باتیں تفصیل سے نوجوان تاجروں کو جو پڑھے لکھے بھی ہیں اپنے انداز سے بتائیں۔ میں چاہتا تھا کہ بہت سے نام اس کالم میں ضرور لکھوں کہ ان سے بڑی توقعات ہیں مگر جگہ کی کمی ہیں۔ ویسے سہیل الطاف اور طارق فضل کے خطاب نے بہت متاثر کیا۔ ضمیر الدین ایک ایسا شخص دیکھا جس سے تاجر حضرات فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر شمائل سے میری کوئی ذاتی واقفیت نہ تھی لیکن ان کا چہرہ مہرہ شخصیت، تقریر اتنی متاثر کن تھی کہ میں اس عمر میں بھی سب کچھ مزید کرنے کیلئے تیار ہوگیا ہوں۔ جن کے پاس جوانی میں یہ شعور‘ دانش اور لگن ہو وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر حکمران قائد کی تعلیمات کو مشعل راہ بنائیں تو پاکستان کی منزل آسان ہوگی اور یہ ملک دوراہے پر جانے سے بچ جائے گا۔
تازہ ترین