• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میںہمیشہ یہی سوچتا رہا کہ عوام کو بے علم اورجاہل رکھنا اس ملک کی نیچ اشرافیہ کی نااہلی، غیر ذمہ داری ، بے نیازی اور ترجیحات کے تعین میںناکامی تھی لیکن نہیں ...... بڈھے وارے سمجھ آئی ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ عوام کی بھاری اکثریت کو ان پڑھ، جاہل، گنوار، بے علم اور بے خبر رکھنا ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی کہ صرف اتنے فیصد عوام کو ’’زیور ِ تعلیم‘‘ سے آراستہ کرناہے جس سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ’’گلشن کا کاروبار‘‘ چلتا رہے کیونکہ ابلیسی اشرافیہ اگر سوفیصد عوام کو ہی جاہل رکھتی تو فوج سے لے کر سول انتظامیہ تک کہاں سے آتے؟ ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیلوں، ججوںاور دیگر پروفیشنلز کی بھی ضرورت تھی سو نام نہاد ’’شرح خواندگی‘‘ کو کنٹرول میں رکھا گیا اور پھر جیسے ہی آبادی نے ضربیں کھانا شروع کیں...... ابلیسی اقلیت نے سستے ترین سرکاری سکولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جان بوجھ کر ان کا ستیاناس کردیاورنہ شروع میں ’’گھوسٹ سکولوں‘‘..... ’’گھوسٹ ٹیچرز‘‘ اور’’گھوسٹ طلبہ‘‘ کا کہیں کوئی رواج ہی نہیں تھا اور نہ ہی کبھی یہ خبر سنی کہ سرکاری سکولوں میں مویشی بندھے ہیں یا یہ کہ وہ نشیئوں اور جواریوں کےڈیروںمیں تبدیل ہوچکے ہیں۔
مختصراً یہ کہ شرح خواندگی کو قابو، کینڈے اور کنٹرول میں رکھنا ایک باقاعدہ منصوبہ اورسازش تھی ورنہ ذرا تصور تو کریں کہ اگر قیام پاکستان کے بعد 25 سال کے اندر اندر شرح خواندگی سوفیصد ہوجاتی تو آج یہ ملک کہاں ہوتا؟
ایسی صورت میں کیا ٹیکس چور اور بنک ڈیفالٹرز حکمران ہوسکتے تھے؟ کیا کسی بھی علاقہ کے تھن ٹٹ اور نامور کن ٹٹے منتخب نمائندے کہلا سکتے تھے؟ شرح خواندگی سو فیصد ہوتی تو دہشت گرد کیسے پیدا ہوتے، پرورش پاتے اور پنپتے؟ کیا کمیشن، کک بیک اور رشوتوںکو یہ عروج نصیب ہوتا؟کیا سوک سینس اسی طرح لاوارث لاش کی طرح بے گورو کفن پڑی ہوتی؟ کیا لوگوں کی عمومی ترجیحات اتنی ہی وقتی اور گھٹیا ہوتیں؟ کیا لوگ سیاسی مداریوںاور رنگ بازوں کے جھانسے میںاتنی ہی آسانی سے آجاتے؟
کیا عوام خیرو شر، جھوٹ اورسچ، صحیح اور غلط کی تمیز کرنے سے اتنے ہی محروم ہوتے؟ کیا سو فیصد پڑھے لکھے عوام اپنی عزت نفس کے تصور سے اسی طرح عاری ہوتے؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر شرح خواندگی سوفیصد ہوتی تو مورخہ 11 جنوری 2014 روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے جناب ڈاکٹر عطا الرحمٰن کے مدلل ترین مضمون بعنوان ..... ’’صدرمشرف: کیا ہم بھول گئے‘‘ اور ایاز امیر کے کالم ’’زیادہ بزدل کون ہے؟‘‘ پر اس ملک میں قیامت نہ آجاتی ؟؟؟ شرح خواندگی سوفیصدہوتی توشاید ایسے کالموںاور مضمونوں کی نوبت ہی نہ آتی اور اگر آ بھی جاتی تو کیا ایسی تحریروں کے بعد بھی قوم اسی طرح سوئی، سمٹی اور سکڑی رہتی؟ لوگ ماتم کرتے ہوئے سڑکوںپر نکل آتے، سول سوسائٹی جاگ اٹھتی، اجتماعی شعور کا شور سماعتوں کے پردے پھاڑ دیتا لیکن میں جانتا ہوںکہ نہ کچھ ہوا نہ ہوگا کیونکہ بے علم، بےخبر، بے شعور معاشروں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی علمی، فکری اور سائنسی حقیقت و حیثیت سے کون واقف نہیں سوائے جاہلوں کے ۔میرے نزدیک وہ ملک کی چند محترم اور معتبر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کی دیانت اور امانت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی دردمندی، گہرائی اور گیرائی میں جا کر پرویز مشرف دور کا موانہ زرداری اورموجودہ نواز حکومت کے ساتھ کیا ہے جسے پرویز مشرف کا کوئی دشمن اور زرداری نواز کا کوئی دوست بھی چیلنج نہیں کرسکتا۔ ہر ہر حوالہ سے مشرف محسن تھا اور باقی دونوں ہماری موروثی امراض ہیں لیکن عوام برپشم قلندر، نہ اپنے ہیرو سے واقف نہ اپنے ولن سے آگاہ۔ یہ ایک ہوشربا موازنہ ہے جسے دوہرانا مناسب نہیں۔ میں صرف منت ہی کرسکتا ہوں کہ خدارا اس ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ایک ایک بار پھر یہ تحریریں ضرور پڑھیں۔
میں نے کالم کے شروع یا وسط میں ایک مشروط بات کی ہے کہ ’’اگر‘‘ قیام پاکستان کے 25سال بعد شرح خواندگی سوفیصد ہوگئی ہوتی تو یوں ہوتا اور ووں ہوتا۔ اس کا ایک پس منظر ہے کہ میرے خاندا ن میں ’’تعلیم‘‘ کا رواج قدیم ہے۔ تقسیم سے پہلے میری پھپھیاں کنیئرڈ کالج میں پڑھتی رہیں۔ دادا کی سٹڈی کے لئے 5مرلہ کاگھر درکار تھا اور وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ ’’پیسے کی طرح جب تک علم بھی تین نسلوں پر محیط نہ ہو تو پوری طرح نافع نہیں ہوتا‘‘ واقعی پہلی نسل پڑھ لکھ بھی جائے تو تعلیم کو تمیز، ترتیب، توازن اور تہذیب کے ساتھ استعمال نہیںکرسکتی کہ ’’نودولتیوں‘‘ کی طرح’’نو علمئے‘‘ بھی اپنے ’’اثاثہ‘‘ کے صحیح استعمال سے آگاہ نہیں ہوتے۔
"Some students drink at the fountain of knowledge............other just gargle."
چشمے سے پانی پینے اور گرارے کرنے میں فرق ہوتاہے۔
تازہ ترین