• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جس بحران میں مبتلا ہے وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے نظریات اور پالیسیوں کا پیدا کردہ ہے۔ یہ اس سوچ کا بحران ہے جس کے ذریعہ اس مملکت کو چلانے کی کوشش کی گئی جو برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے نام پر قائم ہوئی تھی اور جہاں مسلمان روئے زمین پر سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں ۔ یہ اس رویّے کا بحران ہے جو پاکستان پر مشتمل علاقوں اور اس کے لوگوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے ۔ یہ اس ’’حب الوطنی‘‘ کا بحران ہے جس کی جڑیں وطن میں نہیں ہیں۔ اس بحران نے پاکستانی معاشرے کو ایسا بنا دیا ہے کہ اگر آج فرشتے بھی ہوتے تو اس معاشرے سے پناہ مانگتے۔ اس بحران کی سب سے مکروہ شکل دہشت گردی ہے، جس نے لوگوں کی زندگی میں خوش رہنے کی ہر گنجائش ختم کردی ہے۔ کراچی، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں روزانہ کی بنیاد پر لاشیں گر رہی ہیں اور قاتلوں اور دہشت گردوں کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان کے تمام ریاستی اداروں، سیاسی قوتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے لئے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ ریاستی اداروں میں اس چیلنج سے نمٹنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کی مسلح افواج پر ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ان پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے، جن کی وجہ سے نہ صرف دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دور اس حوالے سے اہم ہے کہ پاک فوج نے ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی کو پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ جنرل (ر) کیانی کا دور اس حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ فوج کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ جنرل (ر) کیانی کے دور کی یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت اقتدار منتقل ہوا۔اس دور میں دہشت گردوں کے خلاف سوات ، مالاکنڈ اور دیگر قبائلی علاقوں میں جنگ میں ناقابل یقین فتوحات بھی حاصل کی گئیں مگر یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کو اس صورت حال میں نئی حکمت عملی اور پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ 1947ء سے اب تک پاکستان کی مسلح افواج سمیت اسٹیبلشمنٹ کے دیگر اداروں کی بنائی گئی پالیسیوں اور صف بندیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی اور پاک فوج اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے نظریات اور پالیسیوں کو پرکھنے کے لئے 66 سال کا عرصہ بہت بڑا عرصہ ہے۔ ان نظریات اور پالیسیوں کی وجہ سے جو بحران پیدا ہوا ہے وہ ازخود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظریات اور پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ سقوط ڈھاکا ہماری تاریخ کا ہمیشہ ایک ناقابل فخر اور شرمناک باب رہے گا۔ کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اب تک پانچ بڑے آپریشن ہو چکے ہیں لیکن سب ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ اس وقت جو ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے اس میں بھی روزانہ کی بنیاد پر دہشت گرد بلاخوف و خطر اپنی کارروائیاں کررہے ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کی حالیہ دور کی سب سے بڑی فوجی کارروائی ہوئی اس کے باوجود پوری قوم نے آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعہ حکومت کو یہ مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے۔ اتنی بڑی فوجی کارروائی کے بعد بھی پاکستان کی ریاست انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے پرمجبور ہے اور انتہا پسند نہ صرف مذاکرات کی میز پر نہیں آرہے بلکہ وہ اپنی مرضی سے دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کر رہے ہیں۔ کراچی سے قبائلی علاقہ جات تک ان کارروائیوں کی ذمہ داری بھی وہ بے دھڑک قبول کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی فوجی کارروائیاں ہوئیں۔ نیم فوجی دستے بھی مسلسل برسر پیکار ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں لیکن بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ صرف سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، فاٹا اور پاٹا میں بدامنی نہیں ہے بلکہ پنجاب میں بھی آئے روز دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان کا کوئی علاقہ، شہر ، قصبہ ، گاؤں ، بستی ، گلی اور گوٹھ محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کا ریاستی اداروں پر اعتماد مکمل ختم ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لوگوں کو اپنے طور پر بھی مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بنایا گیا اور اگر لوگوں نے اپنے طور پر اس حوالے سے کوئی کوشش کی ہے تو ان کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ پاکستان سماج انتشار، افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت میں اپنی سمت کھو چکا ہے۔ جنرل راحیل شریف کو صورت حال کا سنجیدگی سے ادراک کرنا چاہئے ۔ ان کا پس منظر پاک فوج کے تمام سابقہ سربراہوں سے مختلف ہے ۔ وہ نہ صرف خاندانی طور پر پیشہ سپاہ گری سے وابستہ ہیں بلکہ وطن پر جان قربان کرنے والے شہداء سے ان کا خونی رشتہ ہے ۔ جنرل (ر) کیانی نے فوج کو ظاہری سیاست سے دور کیا، جنرل راحیل شریف کو ایک قدم آگے بڑھ کر فوج کو اندرونی سیاست سے بھی دور کرنا ہو گا ۔ خاص طور پر پاکستان کی داخلی سلامتی کے معاملات پر پاک فوج کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق وسیع تر مشاورت سے حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ جب تک یہ حکمت عملی تبدیل نہیں ہو گی تب تک عام آدمی کا تصور یہ ہے کہ پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے ۔ پاک فوج کو اپنے غیر اعلانیہ سیاسی اتحادیوں، ماضی کے نظریات کی بنیاد پر بنائے گئے ’’اسٹرٹیجک پارٹنرز‘‘ اور پاک فوج کے حامی ہونے کے دعویدار پرائیویٹ مسلح گروہوں اور پرائیویٹ ملیشیاز کے ساتھ اپنے حقیقی یا تصوراتی تعلقات کا جائزہ لینا ہو گا۔ ان مبینہ اتحادیوں کے سیاسی نظریات، ان کے کردار اور ان کے مخصوص مفادات پر بھی ازسرنو غور کرنا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں ان گروہوں کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کرنا ہو گا جنہیں ماضی میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ سے دور رکھا اور بدگمانی کا رشتہ قائم کیا۔ بحران بہت بڑا ہے اور چیلنج بھی بہت بڑا ہے ۔ ریاستی اداروں کے ساتھ بڑھتی ہوئی بیگانگی کے باوجود پاکستان کے عوام کو جنرل راحیل شریف سے توقعات بھی بہت بڑی ہیں۔
تازہ ترین