• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اٹلی کے ایک سینٹر نے گزشتہ ماہ لائبریریوں سے چوری کی گئی ہزاروں قیمتی اور نایاب کتابوں کا قومی ذخیرہ لائبریریوں کو واپس لوٹا دیا جو موصوف نے ماضی میں مختلف لائبریریوں سے چوری کیا تھا جس میں ان لائبریریوں کے افراد بھی ملوث تھے اور ان کی مدد سے وہ کتابیں چھپا کر گذشتہ 3دہائیوں سے غائب کر دیتے تھے اور اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنا دیتے تھے۔ موصوف نے کتابیں واپس کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ جب بھی وہ کتابیں چُرا کر گھر لاتے تھے تو ان کی بیوی کو جب علم ہوتا تو وہ بہت بُرا بھلا کہتی تھیں جس کو وہ نظر انداز کر کے کتابیں پڑھنے بیٹھ جاتے تھے کیونکہ سیاست کے ساتھ ساتھ ان کو کتابیں پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا اور ساتھ ساتھ اپنی لائبریری کو بھی سجانے کا شوق تھا اور کیونکہ وہ سینٹر کے عہدے پر بہت عرصہ سے فائز تھے اس وجہ سے ان پر ہاتھ ڈالنا ناممکن تھا مگر جب موصوف کی اہلیہ نے آخری وارننگ دی کہ اگر انہوں نے تمام چوری شدہ کتابیں واپس نہیں لوٹائیں تو وہ پولیس کو مطلع کر دیں گی، یہ دھمکی کارگر گزری اور انہوں نے تمام کتابیں اکٹھی کر کے واپس ان کے مالکان تک پہنچا دیں اور اس پر اپنی مکمل شرمندگی کا بھی اظہار کر کے معافی طلب کی۔ اب پولیس اور لائبریری مالکان پر منحصر ہے وہ ان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لاتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک خصوصاً برطانیہ، یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جہاں دنیا بھر سے زیادہ تعلیمی ادارے ہیں وہاں ہر چھوٹی چھوٹی کائونٹیز میں پبلک لائبریریاں کثرت سے پائی جاتیں ہیں۔ اس کی پہلی وجہ وہاں تعلیم لازم اور مفت ہے۔ سیکنڈری سے اوپر البتہ آپشنل ہے کالج اور یونیورسٹیز میں تعلیم مہنگی بھی ہے اور مکمل تجارتی پیمانے پر نجی تعلیمی ادارے بھی حکومت کی معاونت سے تعلیم پھیلا رہے ہیں۔ ہر حکومت زیادہ سے زیادہ بجٹ کا حصہ تین حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اول تعلیمی درسگاہیں، دوم صحت، سوم سوشل سیکورٹی بے روزگاری الائونس پر مشتمل ہوتا ہے جس سے اس کے عوام ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ حکومت ان تینوں عوامی ضرورتوں کو بجٹ کا معمولی حصہ دے کر لاتعلق ہو جاتی ہے جبکہ اسلام میں سب سے پہلے ہمارے پیغمبر محمد ﷺ پر اُتری، وہ آیت تھی ’’اقراء‘‘یعنی ’’پڑھ‘‘جبکہ ہم تعلیم سے اتنے دور ہی ہیں۔ جب مشرقی پاکستان کی آبادی 8کروڑ تھی اس وقت 20فیصد پڑھے لکھے لوگ تھے یعنی 6کروڑ عوام غیر تعلیم یافتہ تھے آج 20کروڑ کی آبادی ہے صرف 35فیصد کہا جاتا ہے کہ پڑھے لکھے ہیں۔ گویا 65فیصد یعنی 13کروڑ غیر پڑھے لکھے لوگ پاکستان میں موجود ہیں یہ قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ اسلامی دور حکومت میں ہی غریبوں کیلئے بیت المال کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ مقرر کر دیا جاتا تھا ۔ جو اب برطانیہ میں رائج ہے مگر ہمارے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے سے لے کر قبر میں جانے تک تمام راستے بے شمار ٹیکسوں جی ایس ٹی، سیلز ٹیکس ، انکم ٹیکس، سر چارجز ، صوبائی ٹیکس اور بے شمار بغیر نظر آنے والے خفیہ ٹیکسوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ حتیٰ کہ بجلی کے بلوں کے ساتھ ٹی وی ٹیکس بھی نافذ ہے جبکہ بجلی کا ادارہ نجکاری کر کے فروخت کر دیا گیا ہے جو وہ آج بھی عوام سے سرکاری ٹی وی ٹیکس وصول کر رہا ہے دوسری طرف حکومت سے بھی سبسڈی لے رہا ہے ۔ صرف نام کی نجکاری کر کے قومی ادارے کو آپس میں مک مُکا کر کے جان چھُڑا لی گئی ۔ جس کے بانی ماضی کے امریکن امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب کی ذہنی اختراع تھی اگر ان اداروں کی نجکاری کر دی گئی تو حکومت کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔ بوجھ تو کیا ہلکا ہوتا تمام قومی ادارے معمولی قیمت پر فروخت کر کے اپنی ذاتی جیبوں کو بھر کر وہ واپس امریکہ چلے گئے ۔ موجودہ حکومت آج تک کچھ نہیں کر سکی بلکہ وہ ان میں سے بچے کھچے قومی اداروں کو قطار میں لگا کر فروخت کرنے میں مصروف ہے۔ کہنے کو صرف 26فیصد کا نام ہو گا مگر 100فیصد منیجمنٹ کے فریبی فارمولے کی آڑ میں سب کچھ حوالے کر دیا جائے گا۔ گویا ماضی کا تسلسل ہو گا کیونکہ ان نجکاری کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ماضی کے چیف جسٹس صاحب اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور موجودہ چیف جسٹس صاحب نے ابھی ایسی کسی کارروائی میں مداخلت نہیں کی ۔ ہاں اوپر ذکر ہو رہا تھا تعلیم اور لائبریریوں کا سلسلہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ کینیڈا تو اس میں سب سے آگے ہے جبکہ جگہ جگہ لائبریریاں قائم کر کے عوام کو مفت کتابیں فراہم کی جاتیں ہیں ۔ صرف ممبر سازی کر کے کتابیں ،ڈسک ،کیسٹ وغیرہ کی سی ڈیز دے دی جاتی ہیں آپ جہاں چاہیں واپس کسی بھی برانچ میں لوٹا سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک ہفتے کے بعد کتابیں واپس نہ کریں تو آپ کو چند ڈالر اضافی ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ عوام سکون سے گھنٹے وہاں گزار کر بھی کتابیں پڑھتے ہیں۔ اخبارات ، رسالے ، طرح طرح کے ڈائجسٹ سب مل جاتے ہیں۔ شخصی کتابیں بھی دستیاب ہوتی ہیں اگر کوئی کتاب نہ ملے تو وہ خرید کر لائبریری کی زینت بڑھاتے ہیں اور وہ بھی مفت مہیا کی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس ہمارے ملک میں جو لائبریریاں ماضی میں تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم کر دی گئیں ۔ آرٹس کونسل کراچی میں ماضی کی انتظامیہ کتب میلہ ہفتہ واری لگاتی تھی گذشتہ 7 سال سے موجودہ انتظامیہ اپنے ممبران سے 300روپے ہر سال وصول کرتی ہے مگر کوئی مفت ثقافتی سرگرمی بشمول کتب بازار منعقد نہیں کرتی۔ جس سے عوام اور ممبران دونوں فائدہ اُٹھاتے تھے ۔ البتہ کبھی سال بھر میں نجی ادارے ایک آدھ کتب نمائش کے ذریعے کتابیں فروخت کرتے ہیں۔ ہماری نیشنل بُک فائونڈیشن جس کا کروڑوں کا بجٹ ہے کتاب اور قلم کی خدمت سے معذور ہے ۔ بہت پہلے تقریباً 5سال قبل تک اس کے ممبر سال بھر میں 3000 روپے تک کی کتابیں 50فیصد ڈسکائونٹ پر خرید سکتے تھے اب وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے ۔ جو ریڈر کلب کے ممبران کو سہولتیں میسر تھیں، ختم کر دی گئی ہیں اور نئی ممبر شپ بھی بند ہے ۔ ایک طرف ہماری قوم تعلیم سے غفلت برت رہی ہے ۔ مہنگائی اور مہنگی کتابیں اس کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں ۔ کم از کم موجودہ حکومت جو ماضی میں چوہدری برادران کا مقبول نعرہ ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ کے بجائے ’’پڑھا لکھا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگا کر تعلیم سب کے لئے شروع کرا دے تو ہماری قوم جہالت کے اندھیروں سے اجالے کی طرف نکل سکتی ہے جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں خواندگی ہمارے 35فیصد کے مقابلے میں 95فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ ہماری درسگاہیں سیاسی اکھاڑوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ ان پر طرح طرح کے رنگ برنگے جھنڈے لگے ہوتے ہیں صرف پاکستان کا جھنڈا اس میں نہیں ہوتا ۔ تعلیم کے بجائے منشیات اور اسلحے کے ڈپوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ ہمارے طالب علموں کا مستقبل خطرے میں ڈال کر صرف سیاسی مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں۔ کل کے معمار کتابوں کے بجائے اسلحہ اُٹھانے کی زیادہ ٹریننگ لے کر نکل رہے ہیں ۔ پاکستان کا مستقبل تو تاریک ہو گا خود ان کا اپنا مستقبل کیسے تاریک نہیں ہو گا۔
تازہ ترین