• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قحط الرجال تو سناتھا یعنی اچھے لوگوں کی کمی، اصولوں کا قحط تو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہر اصول اورکام کرنے کا صحیح طریقہ کتابوں اور کئی ذہنوں میں نقش ہے مگر پاکستان اور اس کی سیاست میں ایسے ایسے نئے اصول اور کارنامے درج کئے جارہے ہیں کہ حیرانی ہی نہیں پریشانی بھی ہونے لگتی ہے مگر گزشتہ ہفتے کئی ایسی مثالیں نظر آئیں مثلاً لوگ اور خاص کر پیپلزپارٹی والے صرف اس لئے خوش ہورہے ہیں اور جشن منارہے ہیں کہ ان کے لیڈر کو جناب زرداری بڑی خوشی کے ساتھ ایک ناجائز کام کرنے کے الزام میں عدالت میں پیش ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اور ان کے وکیل مستقل یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کوئی جرم ثابت کرسکتا ہے تو کرکے دکھائے ورنہ ہمارے موکل کو نردوش اور دودھ سے دھلا ہی سمجھا جائے اور وہ ساری شہادتیں اور معلومات جو اب دنیا کے ہر آدمی کے پاس موجود ہیں وہ سب غلط ہیں یعنی درجنوں کے حساب سے بینک اکاؤنٹ اور ان کے نمبر، جائیدادوں کی پوری پوری تفاصیل مع نام اور پتہ، معتبر اخباروں کی حالیہ کہانیاں جن میں کہاگیا کہ جناب زرداری نے عجمان کی ریاست میں جو دبئی اور شارجہ سے منسلک ہے ایک محل خریدا ہے اور ایک پوری بلڈنگ بھی خریدی ہے تقریباً 87 ملین ڈالر یعنی کوئی 9 ارب روپے کی سب غلط ہیں اور من گھڑت مگر کسی ایک خبر کی تردید کسی نے نہیں کی اور اصولوں کی سیاست کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود پیپلزپارٹی کی الیکشن میں عبرت ناک شکست کے باوجود کسی لیڈر نے حالیہ میٹنگ میں لیڈر سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے اور وہ ان خبروں یا افواہوں کی تردید کیوں نہیں کرتے کہ ان کے اور ان کے حواریوں کے پاس جو اربوں روپیہ جمع ہوگیا ہے وہ کہاں سے آیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے وکیل ثبوت مانگتے ہیں کہ کوئی عدالت میں بنک بیلنس کا سرٹیفکیٹ جمع کرائے کہ کس کے پاس کتنا پیسہ ہے اگر کوئی سوئس یا لندن کے بنک کا کاغذ نہیں لاسکتا تو پھر اس کامطلب یہ ہے کہ ان کے لیڈر پاک پوتر ہیں۔ لوگ زرداری کے 60 ملین ڈالر کا رونا روتے ہیں جو NROکے دوسرے دن ہی سوئس بنکوں سے غائب ہوگئے تھے تو ثابت کیا ہوا کہ جتنے بھی ڈالر وہاں پڑے تھے وہ NRO کا انتظار کررہے تھے اور NRO کس کس کیلئے ہوا اور کس کس میں کس نے فائدہ اٹھایا سب کو معلوم ہے مگر کوئی پارٹی کے اندر یا باہر یہ پوچھنے کو تیار نہیں یا ہمت نہیں کیونکہ لیڈر ناراض ہوگیا تو سیاست ختم اور مال بنانے کے مواقع گئے۔ اب ہر بیان اور ہر پلان اس اصول کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے یا بنایا جاتا ہے کہ لیڈر صاحب خوش ہو چاہے وہ نوسو چوہے کھاکر دس حج کرچکے ہوں اور ہر حج کے بعد نوسو اور چوہے کھانے کو تیار ہوں۔ اب نیا اصول یہ ہے کہ چاہے کتنی بڑی دھاندلی ہو جائے اور پارٹی کا ملیامیٹ ہوجائےاحتجاج اور شور نہیں مچانا ہے کیونکہ احتجاج کرنے سے بے بی جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے اور جمہوریت کا وجود اس لئے ضروری ہے کہ اس نظام میں چوری چکاری اور ڈاکے واکے کی کوئی بات نہیں کرے گا سب آگے کی فکر کریں گے جو ملک وقوم عوام اور خزانے کے ساتھ بلد کار ہوگیا وہ ماضی کی بات رہے گی۔ کوئی یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ پارٹی کی لیڈر کو لوگ شہید کرگئے مگر بچی جمہوریت کو بچانے کے لئے ایک FIR تک درج نہیں کی گئی۔ یہ بھی نیا اصول بنا ہے کہ خود ان لوگوں کو چوری اور ڈاکے پکڑنے کیلئے بڑی بڑی کرسیاں دی جائیں گی جن کے خلاف سارے چوری کے الزام ہیں۔ ایک مثال اسمبلی کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہے جہاں پی پی پی کے دور کے کارناموں کی تفتیش اور احتساب خود ان کے لیڈر خورشید شاہ صاحب کریں گے ماشاء اللہ اور جب موجودہ حکومت اگلے الیکشن ہار گئی اور اپوزیشن میں آگئی تو اس پارٹی کا لیڈر اگلی باری لے گا اور آج کل کے دور کی چوریاں پکڑنے کا ذمہ دار ہوگا یعنی بلی کو دودھ کی نگرانی کرنی ہوگی اورپرانے دودھ کے ڈول کے ڈول ہڑپ کرنے والے دوستوں کو خود پکڑنا ہوگا۔ یہ سب جمہوریت کے نام پر ایک ڈھونگ ہے اربوں کا گھپلا تو اب نئے اصولوں کے مطابق کوئی قابل سزا جرم نہیں رہا۔ ن لیگ کے آتے ہی 500 ارب ایک گردشی قرضے کو نپٹانے کیلئے بانٹ دیئے گئے اور ابھی چند ہفتے یا مہینے ہی گزرے ہیں کہ پھر وہی گردشی اژدھا سامنے آکھڑا ہوا ہے تو وہ پرانے 500 ارب کہاں گئے اور جس نے غلط استعمال کئے وہ کوئی نہیں پوچھ سکتا کیونکہ بے بی جمہوریت کی عزت کو خطرہ فوراً کھڑا ہوجائےگا۔ نندی پور کو چھوڑیں، چین کے ساتھ معاہدوں کو بھی چھوڑیں حالانکہ زرداری صاحب نے چین سے تعلقات کو ایک ایسا مثالی کارنامہ بنادیا تھا کہ وہ خود بحیثیت صدر مملکت کمپنیوں کے ساتھ دستخط کرتے روز نظر آتے تھے۔ ن لیگ نے ریلے ریس کی طرح وہ ڈنڈا پی پی پی سے پکڑا اور انتہائی تیزی سے لے کر دوڑ رہی ہے۔ مگر 8 یا دس ارب کا نقصان ہونا تو اب کوئی بات ہی نہیں۔ پہلے ن لیگ کی حکومت میں SROsکا اسکینڈل بہت مشہور ہوا تھا جس کے ذریعے BMW کاروں پر ڈیوٹی کم کی گئی اور جب ایک پورا جہاز جو پہلے ہی سے کراچی کے باہر کھڑا تھا اندر آگیا اور گاڑیاں کم ڈیوٹی پر چھوڑ دی گئیں تو وہ SRO واپس کردیاگیا اور جمہوریت بچ گئی۔ یہ 90 کی وہائی کا قصہ ہے مگر آج پھر وہی کہانی خاموشی سے دہرادی گئی ہے۔اس مرتبہ BMW کی گاڑیاں نہیں تھیں تو مشروبات کی کمپنیوں کی لاٹری نکل آئی۔ اپنے دوستوں کے کہنے پر فوراً ٹیکس کا طریقہ بدل دیاگیا اور کہاگیا کہ اس سے قومی خزانے میں زیادہ رقم آئے گی کیونکہ دوستی نبھانی تھی اور بے بی جمہوریت کو بچانا تھا کسی کی بات نہیں سنی گئی اور فوراً SRO جاری ہو گیا۔ جون سے اگست اور پھر ستمبر سے دسمبر تک کے جو ٹیکس جمع ہوئے تو پول کھل گیا۔ دوستوں نے 7 سے دس ارب کے ٹیکس جیب میں ڈال لئے اور خوب لوگوں کو مشروبات پلائے گئے۔ اب جو سوالات اٹھنا شروع ہوئے تو فوراً BMW کے SRO کی طرح مشروبات کا SRO بھی واپس لینے کی تیاری جاری ہے یعنی چھ مہینے بے بی جمہوریت کو لاٹری کے ٹکٹ مفت میں دے دیئے گئے اور انعام بھی اور اب نقصان تو ملک کے خزانے کا ہوا مگر SRO واپس لے کر چین کی بانسری بجائی جائے گی اور نیا اصول یہ ہے کہ کوئی کسی سے سوال نہیں پوچھے گا کہ یہ ٹیکس کس نے اور کیوں لگایا۔ فرق کسی کو اس لئے نہیں پڑتا کہ چوری پکڑے والے خود چوروں کے ساتھ مل چکے ہیں اور ملک میں حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں کیونکہ چاہے وہ عمران خان ہوں یا زرداری سب کو خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے زیادہ شور مچایا اور کسی کو کونے میں دھکا دے دیا تو بے بی جمہوریت کو فوراً پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوجائیں گے وہ مشرف کی طرح اسپتال کا راستہ لے گی اور خطرہ بڑھ جائیگا۔ یہ نئے اصول صرف اور صرف لوٹ مار اور بے ایمانی اور نااہلیت کو بچانے کیلئے بنائے گئے ہیں اور نام اس دوشیزہ کا استعمال ہورہاہے جس کی عزت کو خطرہ کسی باہر والے گھس بیٹھئے سے نہیں بلکہ اس نظام کو چلانے والے اور اس کے رکھوالے سیاست دانوں سے ہے۔ اس دوشیزہ جس کا نام جمہوریت ہے کو کسی طرح اس کے محافظوں سے بچایا جائے۔
تازہ ترین